کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 34
﴿وَمَا لَہُمْ اَلاَّ یُعَذِّبَہُمْ اللّٰهُ وَہُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُوْا اَوْلِیَائُہٗ إنْ اَوْلِیَائُ ہُ اِلاَّ الْمُتَّقُوْنَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ﴾ (الانفال ۸:۳۴) ’’اور ان میں کیا بات ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ دے، حالانکہ وہ مسجد ِحرام میں آنے سے لوگوں کوروکتے ہیں ، جبکہ وہ اس پر تولیت کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اس کی تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کا ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔‘‘ اس آیت میں واضح طور پر فرمایا گیا کہ مشرکین مسجد ِحرام پر تولیت کا حق نہیں رکھتے۔ تولیت کا حق تو صرف پرہیزگاروں کو ہے۔ اگر مشرکین پرہیز گار نہ ہونے کی وجہ سے مسجد حرام کی تولیت کے حق دار نہیں ہیں تو یہود اس قدر گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے اور مغضوب علیہم ہونے کے باوجود مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے حق دار کیسے ہوسکتے ہیں ؟ اشراق کے مضمون نگار اس آیت ِمبارکہ کے نزول کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل پر یوں تبصرہ کرتے ہیں : ’’لیکن بیت اللہ پر مشرکین کی تولیت کے حق کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً اس وقت تک چیلنج نہ کیا جب تک ۹ ہجری میں قرآنِ مجید میں اس کے بارے میں واضح ہدایت نازل نہیں ہوگئی۔ حتیٰ کہ ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد بھی جب مشرکین کی سیاسی قوت و شوکت بالکل ٹوٹ چکی تھی اور بیت اللہ کا حق تولیت ان سے چھین لینے میں کوئی ظاہری مانع موجود نہیں تھا، آپ نے کعبہ کی تولیت کے سابقہ انتظام ہی کو برقرار رکھا اور اس سال مسلمانوں نے اسی انتظام کے تحت ارکانِ حج انجام دیئے۔ مشرکین کو بھی اس سال حج بیت اللہ سے نہیں روکا گیا۔‘‘ مذکورہ بالا استدلال محض کج فہمی اور کج بحثی کے زمرے میں آتا ہے۔ ورنہ مصنف موصوف کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس استدلال کا اطلاق مسجد ِاقصیٰ پر نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا غور فرمائیے ۲ ہجری سے لے کر ۸ ہجری تک مشرکین سے تولیت لینے کا کوئی موقع نہیں تھا۔ ۸ہجری میں جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبۃ اللہ کی چابیاں پیش کی گئیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبۃ اللہ کے سابقہ متولی (عثمان بن طلحہ) کے حوالہ کردیا۔ آپ کا یہ اقدام یہ ثابت نہیں کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآنِ مجید کے مذکورہ حکم کی پروا نہیں تھی۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ اس عظیم الشان اور عدیم النظیر تالیف ِقلوب کے مظاہروں میں سے ایک تھا جس پر انسانیت ہمیشہ فخر کرے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل مبارک سے جو نتیجہ اشراقی مصنف نے نکالا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کے گھر کے متعلق فرمایا: ’’اگر کوئی ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے گا تو وہ محفوظ ہوگا۔‘‘