کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 33
حق تولیت سے یہود کی معزولی
اشراقی مصنف نے اس موضوع پرقرآنِ مجید اور احادیث ِمبارکہ سے جس طرح استنباط فرمایا ہے،چاہیے تو یہ تھا کہ اس پر کڑی تنقید کی جاتی، مگر خدشہ یہ ہے کہ ’اہل اشراق‘ اسے ’دشنام طرازی‘ قرار دیتے ہوئے اپنے وضع کردہ معیارِ اخلاق کے د فتر کھول کر بیٹھ جائیں گے جیسا کہ ان کی عادت ہے۔ (اشراق، اکتوبر ۲۰۰۱ء)
اور پھر ’اہل تدبر‘ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس نقد و تبصرہ پر ’عامیانہ انداز‘ ہونے کا فتویٰ صادر فرمائیں گے جیسا کہ وہ ’محدث‘ کے مولانا امین احسن اصلاحی کے متعلق خصوصی شمارہ کے بارے میں کرچکے ہیں ۔ (تدبر: ستمبر ۲۰۰۱ء)
اسی لئے ان کی اس ’حساسیت‘ کا خیال رکھتے ہوئے ہم یہاں اشارات پر ہی اکتفا کرتے ہیں لیکن اُمید ہے’اہل اشراق‘ اپنے متعلق اس قدر تنقید تو برداشت کر ہی لیں گے جس قدر انہوں نے ’اہل خلافت‘ (’تنظیم اسلامی‘ کے امیر) اور دیگر دینی سکالروں کے متعلق المیزان میں روا رکھی ہے۔ میزانِ انتقاد پہ دوسروں کو تولنا ویسے بھی ان کا ہی استحقاق تو نہیں ہے!!
ملت ِاسلامیہ کا بڑا واضح موقف ہے کہ یہودی ایک فتنہ گر قوم ہیں ، یہ دنیاکی واحد قوم ہے جس کے ہاتھ اس قدر انبیا کے قتل سے رنگے ہوئے ہیں ، انہوں نے ہمیشہ عہدشکنی کی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ صحائف میں تحریف کامکروہ کردار ادا کیا اور یہ حق بات کو چھپا کر ہمیشہ دجل و فریب اورتلبیس کوشی سے کام لیتے رہے ہیں ۔ قرآن مجید نے سورۃ البقرہ اور دیگر مقامات پر ان کے گھناؤنے جرائم پر مبنی ’چارج شیٹ‘ پیش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم کی پاداش میں اس خبیث قوم کو دنیا کی راہنمائی کے منصب سے معزول کرکے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بنو اسمٰعیل کے سر پر نبوت کا تاج رکھا جو قیامت تک ان کے لئے و جہ ِفضیلت و تفاخر رہے گا۔ اس لئے انبیا کی سرزمین یعنی فلسطین اور مسجد ِاقصیٰ پر ان کا کسی قسم کا حق باقی نہیں رہا۔
اُمت ِ مسلمہ کا یہ موقف ہے کہ جس طرح انبیا کے مشن کی وراثت اُمت ِ مسلمہ کو منتقل ہوگئی ہے اس طرح مسجد ِاقصیٰ کی ملکیت و تولیت کا حق بھی مسلمانوں کو منتقل ہوگیا ہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر مسجد ِحرام پرمشرکین کی تولیت کی منسوخی کے متعلق سورۃ الانفال کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی :