کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 31
جنوبی جانب تعمیر کی گئی، یعنی عین ہیکل پر اس کو نہ بنایا گیا۔
3. عبدالملک نے قبۃ الصخرہ اور مسجد ِاقصیٰ دونوں بنائیں ۔ مسجد اقصیٰ کا مقام وہی رکھا گیا، جہاں پر ’لکڑی کی مسجد‘ (مسجد عمر) واقع تھی، گویا یہ مزعومہ ہیکل کے مرکزی حصہ سے ہٹ کر تعمیر کی گئی۔
مندرجہ بالا معلومات کودرست مان لیا جائے، تو یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ ’مسجداقصیٰ‘ ہیکل سلیمانی کی عین جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھراشراقیت پسندوں کی جانب سے یہودیوں کے حق تولیت کی بازیابی مہم ہوا میں معلق ہوکر رہ جاتی ہے، زمینی حقائق تو اس کے خلاف ہی ثابت کرتے ہیں ۔
مصنف نے عہد ِنامہ عتیق (تورات) اور یہودی مصادر سے جو معلومات نقل کی ہیں ، ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو ہیکل سلیمانی کانام بہت بعد میں دیا گیا مثلاً وہ لکھتے ہیں :
’’پوپ اربن دوم کے کلمہ پر عیسائی مجاہدین کا ایک لشکر یروشلم پر قبضے کے لئے روانہ ہوا جس نے ۱۰۹۹ء میں یروشلم پر قبضہ کرکے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ مسیحی فاتحین نے قبۃ الصخرۃ کے اوپر ایک صلیب نصب کرکے اس کو "Templum Drmini" کا اور مسجد اقصیٰ کو "Templum Solomoni" کا نام دے دیا‘‘ (ایضاً)
اس عبارت سے جہاں یہ مترشح ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ دو الگ الگ عمارتیں ہیں ، وہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی بنائی ہوئی مسجد اقصیٰ کو پہلی دفعہ ’سلیمانی ٹیمپل‘ کا نام صلیبی جنونیوں نے ۱۰۹۹ء میں دیا، پہلے اس نام کا دعویٰ نہیں کیا گیاتھا۔
اس عبارت میں مصنف کی ’روشن خیالی‘ (یعنی اسلامی حمیت کا فقدان) بھی قابل غور ہے، وہ بالکل مستشرقین اور مسیحی مصنّفین کے اتباع میں صلیبی جنونیوں کو ’مسیحی مجاہدین‘ کہتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں یہ پہلے ’مسلمان عالم دین‘ ہیں جوصلیبیوں کے لئے ’مجاہدین‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔
یہودیوں کے حق ِتولیت کے پرجوش علمبردار محقق ممدوح نے ’خروج‘ سموئیل، اور تواریخ جیسے عہدنامہ عتیق کے حصوں سے جو معلومات نقل کی ہیں ، ان سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہودی جس ’ہیکل سلیمانی‘ کی مسجد ِاقصیٰ پر تعمیر نو کرناچاہتے ہیں ، وہ عین اسی مقام پر تباہ کیاگیا تھا وہ زیادہ سے زیادہ یہ بتاسکے ہیں کہ بنی اسرائیل نے کسی دور میں ’ہیکل سلیمانی‘ تعمیر کیا تھا۔
مصنف کی طولانی ’تاریخ نویسی‘ کا خلاصہ یہ ہے :