کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 30
اُمت ِمسلمہ اور صہیونیت محمد عطاء اللہ صدیقی
[قسط نمبر ۲]
یہودیوں کے حق ِتولیت کے ’اِشراقی‘ علمبردار
معاصر ’اشراق‘ کے نوجوان سکالرز کی تحقیق کاری کا ناقدانہ جائزہ
مسجد اقصیٰ کہاں پر ہے؟
یاد رہے کہ آج کی مسجداقصیٰ وہ ’مسجد ِاقصیٰ‘ نہیں ہے جس سے آقائے دوجہاں ، امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر شروع کیا تھا۔ یہ درحقیقت وہ مسجد ہے جس کی تعمیر اُموی خلیفہ عبدالملک کے دور میں ۶۸۸ء میں ہوئی تھی۔ اس کا اعتراف اشراقی مصنف کو بھی ہے۔ دوسری بات جان لینے کی یہ ہے کہ قبۃ الصخرۃ اور مسجد ِاقصیٰ بھی ایک نہیں ہیں جیسا کہ مصنف کی ان سطور سے ظاہر ہوتا ہے
’’۶۳۸ء میں مسلمانوں نے یروشلم کو فتح کیا تو اس موقع پر امیرالمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ صحابہ کی معیت میں مسجد ِاقصیٰ میں آئے۔ اس وقت ہیکل کے پتھر (صخرۂ بیت المقدس) کے اوپر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مل کر اس کو صاف کیا اور احاطہ ہیکل کی جنوبی جانب میں نماز پڑھنے کے لئے ایک جگہ مخصوص کردی۔ بعدمیں اس جگہ پرلکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ ۶۸۸ء میں اُموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے صخرہ بیت المقدس کے اوپر ایک شاندار گنبد تعمیر کرا دیا جو قبۃ الصخرۃ "Dome of Rock" کے نام سے معروف ہے۔ اس نے لکڑی کی مذکورہ سادہ مسجد کی تعمیر نو کرکے اس کے رقبے کو مزید وسیع کردیا، اسلامی لٹریچر میں ’مسجد اقصیٰ‘ سے مراد یہی مسجد ہے۔‘‘ (اشراق: اگست ۲۰۰۳ء)
اس عبارت سے درج ذیل باتیں اَخذ کی جاسکتی ہیں :
1. ۶۳۸ء میں مسلمانوں نے جب یروشلم فتح کیا تو ہیکل کے پتھر پر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا، گویا اس کی عبادت نہیں کی جاتی تھی۔ اگر یہ ہیکل سلیمانی کا پتھر ہوتا تواس حالت میں ہرگز نہ ہوگا۔ یروشلم میں موجود یہودیوں کی مختصر تعداد بھی اپنے معبد کا یہ حشر نہ ہونے دیتی۔
2. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے بعد وہاں تعمیر کی جانے والی لکڑی کی مسجد (مسجد عمر رضی اللہ عنہ ) ہیکل کی