کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 29
واضح نہ ہو سکی ۔میرا مدعا یہ ہے کہ جولوگ فرنیچر یاموٹریں یا ایسی ہی دوسری چیزیں کرائے پر چلانے کا کاروبار کرتے ہیں ، ان کے کاروبار کی مالیت اس منافع کے لحاظ سے مشخص کرنی چاہیے جو اس کاروبار میں ان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس فرنیچر یا ان موٹروں کی قیمت پر زکوٰۃ محسوب کی جائے جسے وہ کرائے پر چلاتے ہیں ۔ کیونکہ یہ تووہ آلات ہیں جن سے وہ کام کرتے ہیں اور آلات کی قیمت پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ در اصل اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک کاروبار جو منافع دے رہا ہو اس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جائے گی کہ اس قدر منافع دینے والے کاروبار کی مالیت کیا قرار پانی چاہیے ۔رہے کرایہ کے مکانات تو ان کے بارے میں مجھے بھی اس بنا پر تامل ہے کہ سلف سے ان پر زکوٰۃ لگائے جانے کاثبوت نہیں ملتا۔‘‘
’الإبل العوامل‘(کام کرنے والے اونٹوں ) پر زکوٰۃ نہ لگنے کی وجہ وہی ہے جو میں نے پہلے بیان کی ہے کہ ایک آدمی جن آلات یا حیوانات کے ذریعے سے کام کرتا ہو، ان پر زکوٰۃ نہیں لگتی۔ مثلاً ہل چلانے والے بیل یا بار برداری کے جانور، ان پر زکوٰۃ ِمواشی عائد نہ ہوگی۔ اسی طرح ڈیری فارم کے جانوروں پر زکوٰۃ ِمویشی عائد نہ ہوگی، ان کی زکوٰۃ تو اس پیداوار پر زکوٰۃ لگنے کی صورت میں وصول ہوجاتی ہے جو ان کے ذریعہ سے حاصل کی گئی ہو۔ کرایہ پر چلانے جانے والے اونٹوں پر بھی عوامل کا اطلاق ہوتا ہے، اس لئے ان پر بھی زکوٰۃ مویشی عائد نہ ہونی چاہئے اور نہ ان کی مالیت پر زکوٰۃ لگنی چاہئے۔ بلکہ اس کرایہ کے کاروبار کی جو Good Willمشخص ہو، اس پر زکوٰۃ لگنی چاہئے۔‘‘ (ترجمان القرآن:فروری ۱۹۶۲ء اور رسائل ومسائل حصہ سوم: ص ۳۳۰)
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر کرائے پرچلنے والے بڑے بڑے کمپلیکس، بسیں ، جہازاور قیمتی مشینری وغیرہ کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرا ردے دیا جائے تو پھر بہت سے لوگ زکوٰۃ سے بری ہوجائیں گے اور غربا کی حق تلفی ہوگی۔ حالانکہ یہ محض مفروضہ ہے، اس لئے کہ جس شخص کے آلاتِ تجارت کروڑوں کی مالیت کے ہوں ، اس کی آمدن بھی لاکھوں سے کم نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کی آمدن پر جب ہزاروں ، لاکھوں روپیہ بطورِ زکوٰۃ نکل رہا ہے تو پھر اسے کسی ایسی تنگی میں مبتلا کرنے کی کیا ضرورت جو شریعت نے پیدا نہیں کی۔ بلکہ ایسے اصحابِ ثروت اگر آمدن ہی کی زکوٰۃ نیت و خلوص سے ادا کرتے رہیں تو معاشی و معاشرتی سطح پر بہت بڑی مثبت تبدیلی رونما ہوجائے گی۔٭ ان شاء اللہ!