کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 28
لیکن یہ آلاتِ تجارت اور سامانِ تجارت میں فرق ضرور کرتے ہیں ۔ اس لئے مضمون نگار کو چاہئے تھا کہ وہ ان اصحاب کے نکتہ نظر کا بغور مطالعہ کرکے کوئی رائے دیتے۔ لیکن انہوں نے مذکورہ مضمون میں چونکہ ایک دو ثانوی مصادر سے سرسری استفادہ کے بعد اخذ و ترتیب سے کام لیا ہے، اس لئے نہ صرف یہ کہ پورا مضمون ہی خلط ِمبحث کا شکار دکھائی دیتا ہے بلکہ اس میں یہ بلند بانگ دعویٰ بھی ہے کہ: ’’ان حضرات (یعنی آلاتِ تجارت پر عدمِ وجوب کے قائل… ناقل) کے پاس قرآن و سنت کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ اس کا سارا انحصار فقہا کی درج ذیل عبارت پر ہے جو حاجاتِ اصلیہ پر زکوٰۃ نہ ہونے سے متعلق ہے…‘‘ ( ایضاً:ص۵۲)
حالانکہ مضمون نگار اگر بنیادی مصادر ومراجع کی طرف رجوع کرلیتے تو یقینا اتنا بڑا دعویٰ نہ کرتے۔ کیونکہ قرآن و سنت میں ایسے دلائل موجود ہیں جن سے آلاتِ تجارت پر عدمِ وجوبِ زکوٰۃ کی تائید حاصل ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں چار احادیث و آثار تو ہم پیچھے ذکر کر آئے ہیں ۔ باقی رہی قرآنی دلیل تو وہ بھی پیش خدمت ہے :
﴿اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِیْ الْبَحْرِ﴾ (الکہف:۷۹)
’’کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔‘‘
اس آیت میں یہ بات موجود ہے کہ دریائی کشتی جو یقینا ایک قیمتی چیز تھی، کے مالک ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسکین قرار دیا ہے اور مسکین بذاتِ خود مستحق زکوٰۃ ہوتا ہے۔ گویا کشتی جو ان لوگوں کے لئے آلہ تجارت تھی، اس پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کی کوئی بات نہیں کی لہٰذا اسی طرح ہر آلہ تجارت زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار پائے گا خواہ وہ کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے کہ دریا اور سمندر میں کام کرنے کے قابل درمیانے درجہ کی کشتی بھی انتہائی قیمتی ہوتی ہے اور خود ہمارے ایک دوست نے ایسی ہی معمولی کشتی ۱۵ لاکھ میں خریدی حالانکہ وہ تھی بھی استعمال شدہ۔
مجلہ’ترجمان القرآن‘ کی مناسبت سے یہاں یہ بات واضح کردینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بانی ٔترجمان سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے بھی اس مسئلہ میں وہی تھی جو جمہور فقہائے امت کی گذشتہ چودہ صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ چنانچہ سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض لوگوں کے اعتراضات کے باوجود یہی رائے دی کہ
’’ کرایہ پر دی جانے والی اشیا کے بارے میں جو کچھ لکھا گیاتھا وہ مختصر تھا، اس لیے بات