کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 27
صفحات میں ’ذاتی استعمال کی اشیا پر زکوٰۃ‘ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ موصوف نے دوسرا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ قدیم دور کے آلاتِ صنعت کو جدید آلاتِ صنعت کا محل ِقیاس نہیں بنایاجاسکتا اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ قدیم آلاتِ صنعت براہِ راست استعمال ہوتے تھے جبکہ جدید آلاتِ صنعت اکثر و بیشتر بالواسطہ استعمال ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان میں مماثلت نہیں ۔ حالانکہ یہ اعتراض سرے سے غلط ہے اس لئے کہ اوّل تو قدیم آلاتِ تجارت دونوں طرح ہی استعمال ہوتے تھے۔ بلاواسطہ میں تو انہیں بھی شک نہیں جبکہ غلاموں کے ذریعے اور کرائے اور ٹھیکے کے ذریعے ہونے والے سبھی کام بالواسطہ ہی کی مثالیں ہیں ۔ اور دورِ حاضر میں کرائے پراستعمال ہونے والے تجارتی کمپلیکس، بسیں ، گاڑیاں اور جہاز وغیرہ کو قدیم دور میں کرائے پر چڑھنے والے مکانوں ، باغوں وغیرہ پر قیاس کرنا بالکل صحیح ہے۔ اسی طرح وہ جدید آلاتِ صنعت جنہیں بالواسطہ استعمال کیا جاتا ہے، انہیں قدیم دور کے ان آلات پر قیاس کرنا صحیح ہے جن کے ذریعے مالکوں کے غلام کام کیا کرتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شریعت نے جب عوامل (یعنی ذرائع پیداوار اور آلاتِ تجارت) کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے بالواسطہ اور بلاواسطہ کی کوئی تفریق نہیں کی تو پھر ہمیں اس تفریق کی آخرکیا ضرورت ؟ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یوسف قرضاوی نے ہمارے موقف کے حامل متقدم فقہاکے دلائل ذکر کرتے ہوئے ان صریح احادیث کو پیش نہیں کیا جن میں ذرائع پیداوار کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔کچھ یہی صرفِ نظر پروفیسر احمد اقبال قاسمی صاحب نے اپنے مضمون ’زکوٰۃ کا نفاذ ، چند قابل غور پہلو‘ (شائع شدہ ترجمان القرآن، اگست ۲۰۰۳ء) میں کیاہے۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں نے سامانِ تجارت اور آلاتِ تجارت کو ایک ہی زاویہ سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اور آخر میں یہ الفاظ رقم کردیے ہیں کہ ’’احقر بھی حضرت مولانا محمد طاسین مرحوم اور ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور ڈاکٹر ابوزہرہ، پروفیسر عبدالوہاب خلاف کے نظریات کی پوری طرح تائید کرتا ہے۔‘‘ (ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ اگست ۲۰۰۳ء:ص۵۳) حالانکہ یہ اصحاب اگرچہ آلاتِ تجارت کی بعض صورتوں پر وجوبِ زکوٰۃ کے قائل ہیں