کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 26
فرنیچر زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گے، اسی طرح فیکٹریوں میں نصب شدہ مشینیں جو پیداوار کا ذریعہ بنتی ہیں خود بکاؤ مال نہیں ہوتیں ، وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گی۔‘‘ (تجارت اور لین دین کے مسائل: ص۲۹۳)
اسی طرح ہر وہ چیز آلاتِ تجارت اور ذرائع پیداوار متصور ہوگی جو کرائے کے لئے دی جاتی ہو۔ مثلاً کرائے کا مکان، دکان، فرنیچر، گاڑیاں ، بسیں اور دیگر سامان وغیرہ۔ یہ چیزیں بھی چونکہ کمائی کا ذریعہ (آلاتِ تجارت/ذرائع پیداوار) ہیں ، اس لئے ان سے حاصل ہونے والی آمدنی اگر نصاب کے بقدر ہو اور اس پر ایک سال کا عرصہ بھی گذر چکا ہو تو پھر اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، ورنہ نہیں ۔ ( دیکھئے المغنی: ج۳ ص۴۷) خواہ بذاتِ خود یہ چیزیں کتنی ہی قیمتی اور مہنگی کیوں نہ ہوں ۔ جمہور فقہائِ اُمت کا گذشتہ چودہ صدیوں سے یہی موقف رہا ہے مگر ماضی قریب میں علامہ یوسف قرضاوی اور ان کے تین استادوں (ابوزہرہ، عبدالرحمن حسن اور عبدالوہاب خلاف) نے اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہوئے ایک نئی رائے پیش کی اوروہ یہ ہے کہ صرف ایسے آلاتِ تجارت ، زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں ۔چنانچہ موصوف رقمطراز ہیں :
’’جو آلات آج بھی دست کار کے ذاتی استعمال کے ہوں اور وہ ان کو خود استعمال کرتا ہو مثلاً حجام کے آلاتِ حجامت وغیرہ اور وہ آلاتِ صنعت جو حصولِ منفعت میں رأس المال کی حیثیت رکھتے ہیں اور مالک کو نفع پہنچانے کا ذریعہ بنتے ہوں جیسے کارخانے کا مالک جواس کارخانے کو چلانے کے لئے مزدوروں کو اُجرت پرلگاتا ہو تو اس کے یہ صنعتی آلات (مشینیں ) اس کا رأس المال اور مالِ نامی متصور ہوں گے کیونکہ اسے ان مشینوں سے جو منفعت حاصل ہورہی ہے، اس کے لحاظ سے یہ مشینیں آہن گر یا بڑھئی کے ان اوزاروں کے مشابہ نہ ہوں گی جن سے وہ ہاتھ سے کام لیتا ہے۔ اس لئے ان آلاتِ صنعت اور مشینوں کے مالِ نامی ہونے کے باعث ان پر زکوٰۃ عائد ہوگی اور ان کا شمار ذاتی استعمال کی اشیا میں نہیں ہوگا۔‘‘
(فقہ الزکوٰۃ: ج۲/ ص۶۱۰،۶۱۱)
مذکورہ اقتباس میں موصوف نے دو باتیں ذکر کی ہیں :’’ ایک تو یہ کہ جدید صنعتی آلات مالِ نامی ہیں اور مالِ نامی پر زکوٰۃ فرض ہے۔‘‘حالانکہ ہر مالِ نامی موجب زکوٰۃ نہیں ہوتا اور خود موصوف نے بھی اس پر بحث کی ہے کہ ’’ہر مالِ نامی محل زکوٰۃ نہیں ۔‘‘ اس کی مزید تفصیل پچھلے