کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 24
علیھا الحول‘‘ (الاجماع: ص۴۵) ’’اہل علم کا اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ جو مال تجارت کے لئے ( رأس المال) ہو اس پر زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ اس پر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔‘‘ مذکورہ بالا اجماع جن نصوص کی بنیاد پر ہوا ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں : (i)﴿یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَاکَسَبْتُمْ﴾ (البقرۃ:۲۶۷) ’’اے ایمان والو! جو پاکیزہ مال تم نے کمائے ہیں ، ان سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔‘‘ (ii) حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یأمرنا أن نخرج الصدقۃ من الذی نعدّ للبیع‘‘ (ابوداود:۱۵۶۲) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم فرمایا کرتے تھے کہ ہم ان تمام چیزوں سے زکوٰۃ ادا کریں جو بغرضِ تجارت ہمارے پاس موجود ہوں ۔‘‘ (iii) حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، بکریوں پر زکوٰۃ ہے، گائیوں پر زکوٰۃ ہے اور تجارت کے کپڑے پرزکوٰۃ ہے۔‘‘ (المحلی: ج۵/ص۲۲۴) اگرچہ مذکورہ بالا روایتوں کی سندوں پر بعض محدثین نے تنقید کی ہے، تاہم اجماعِ اُمت اور عمل صحابہ رضی اللہ عنہم سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ سامانِ تجارت پر زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ (دیکھئے کتاب الاموال لابی عبید: ص۴۲۵ اور السنن الکبری للبیہقی :۴/۱۴۷،فقہ الزکوٰۃ:ایضاً،الاجماع ص ۴۵) آلاتِ تجارت پر زکوٰۃ نہیں ہے! سامانِ تجارت اور آلاتِ تجارت میں واضح فرق ہے۔ جوچیزیں تجارت کیلئے (For Sale) ہوں ، ان پرہر سال چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ نکالا جائے گا۔ اہل ظواہر، امام شوکانی، اور نواب صدیق حسن خاں کو چھوڑ کر باقی اُمت کا اس پر اتفاق رہا ہے اور اسی طرح اُمت کا اس بات پر بھی اجما ع رہا ہے کہ آلاتِ تجارت خواہ وہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں ، ان پر زکوٰۃ نہیں تاہم ان سے حاصل ہونے والی آمدنی پراگر ایک سال کا عرصہ گزر جائے اور وہ نصاب کے برابر ہو تو پھر اس کی زکوٰۃ دی جائے گی۔(دیکھئے: الفقہ علی المذاھب الأربعۃ: ج۱/ ص ۵۹۵) اس سلسلہ میں جو دلائل پیش کئے جاتے ہیں وہ یہ ہیں :