کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 23
امام ابویوسف اور امام محمد کی رائے ان اشیا کے بارے میں جن کا پھل باقی نہ رہے (جیسے سبزیاں اور ترکاریاں اور کھیرے ککڑی وغیرہ) امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے سے مختلف ہے اور ان اشیا میں (بھی) ان کے نزدیک زکوٰۃ ہے۔‘‘ (فقہ الزکوٰۃ: ج۱/ ص۴۷۰ تا۴۷۱)
داود ظاہری وغیرہ کا نکتہ نظر بھی یہی ہے کہ
’’ہر اراضی پیداوار پر زکوٰۃ ہے اور اس میں کوئی استثنیٰ نہیں اور یہی ابراہیم نخعی کا بھی ایک قول ہے اور یہی حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ ، مجاہد رحمۃ اللہ علیہ ، حمادبن ابی سلمان رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے۔‘‘ (ایضاً)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اس سلسلہ میں کئی طرح کے اقوال مروی ہیں تاہم ابن قدامہ نے المغنی میں ان کا جو مشہور قول بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ
’’وکل ما أخرج اللّٰه عزوجل من الأرض مما …‘‘ (المغنی: ج۴/ ص۱۵۵)
ان تمام اشیا پر زکوٰۃ (عشر) ہے جن میں یہ تین وصف ہوں :
1. خشک ہونے کی خاصیت ہو 2. محفوظ کی جاسکتی ہوں 3. اور تولی جاسکتی ہوں ۔‘‘
شوافع کا نکتہ نظر یہ ہے کہ (دیکھئے شرح المنہاج: ج۲/ ص۱۶)
ہر وہ زرعی جنس جو غذا اور ذخیرہ بن سکتی ہے اس پرعشر ہوگا اور جن میں یہ شرائط نہ ہوں ،ان پر عشر نہیں ۔ مثلاً بادام، اخروٹ، پستہ، سیب، انار، امرود وغیرہ پر ان کے نزدیک عشر نہیں
مالکیوں کی بھی یہی رائے ہے تاہم انہوں نے صرف ۲۰ متعین چیزوں پر عشر واجب قرار دیا ہے۔
(دیکھئے الشرح الکبیر مع حاشیہ الدسوقی :ج۱ ص۴۴۷)
مذکورہ بالا اختلاف میں داود ظاہری کا نکتہ نظر ہمیں اَقرب ا لی السنۃ معلوم ہوتا ہے ۔امام ابو حنیفہ اور امام احمد کا فتویٰ بھی یہی ہے ۔متاخر علمائے اہلحدیث کی بڑی تعداد بھی اسی کی قائل ہے اور علامہ یوسف قرضاوی نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے ۔ باقی رہی ترمذی کی وہ حدیث جس میں ہے کہ ’سبزیوں میں زکوٰۃ نہیں ‘ تو اسے خود امام ترمذی نے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔
4. اَموالِ تجارت پر زکوٰۃ
ابن منذر فرماتے ہیں کہ
’’وأجمعوا علی أن في العروض التي تدار للتجارۃ الزکوٰۃ إذا حال