کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 21
زیورات پر زکوٰۃ کے قائل رہے ہیں ، ان میں سے کسی نے بھی انہیں زیورات پر قیاس نہیں کیا۔ تقریباً یہی رائے ابن حجر کی بھی ہے، دیکھئے فتح الباری: ج۳/ص۳۶۳ اور حنفیہ کا بھی یہی موقف ہے ، دیکھئے درّمختار: ج۲ /ص۲۷۳ اور فتاویٰ ہندیہ :۱/۱۰۲ 3. زرعی پیداوار پر زکوٰۃ زرعی پیداوار پر زکوٰۃ کو اصطلاحی طور پر ’عشر‘ کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ زرعی پیداوار میں ہر فصل تیا رہونے کے بعد اس کا عشر (یعنی دسواں حصہ)بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے بشرطیکہ مجموعی پیداوار پانچ وسق یا ا س سے زیادہ ہو اور زمین کی سیرابی کے لئے مشقت کرکے پانی حاصل نہ کیا گیا ہو یعنی ٹیوب ویل لگانے یا کنویں کھودنے کی بجائے بارش یا نہروں کے ذریعے بغیرمشقت کے پانی حاصل ہوجائے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر از راہِ تخفیف بیسواں حصہ (یعنی نصف العشر) بطورِ زکوٰۃ نکالا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فیما سقت السماء والعیون أو کان عثریا العشر وما سقی بالنضح نصف العشر‘‘ (بخاری:۱۴۸۳) ’’جو زمین بارش یا چشموں سے سیراب ہوتی ہے یا پھر وہ بارانی ہو اس میں عشر ہے اور جو زمین رہٹ وغیرہ کے پانی سے سیراب کی جاتی ہو تواس میں نصف العشر ہے۔‘‘ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار اگر پانچ وسق سے کم ہو تو پھر اس میں کسی قسم کی زکوٰۃ (عشر) فرض نہیں جیسا کہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لیس فیما أقل من خمسۃ أوسق صدقۃ‘‘ (بخاری:۱۴۸۴) ’’پانچ وسق سے کم پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔‘‘ اور واضح رہے کہ پانچ وسق کا مجموعی وزن تقریباً۱۸ من یا دوسرے لفظوں میں ۷۲۰ کلوگرام بنتا ہے جبکہ بعض علما نے ۱۵ من بعض نے ۲۰ من اور بعض نے ۲۵ من کا اندازہ بھی نکالا ہے۔ واللّٰه اعلم!