کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 20
اس اجتہاد پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
ہیرے جواہرات وغیرہ پر زکوٰۃ کا مسئلہ: ہیرے جواہرات وغیرہ اگر تجارت کیلئے رکھے ہوں تو پھر بلا اختلاف اموال تجارت کی طرح ان پربھی زکوٰۃ فرض ہوگی لیکن اگر یہ ذاتی استعمال (مثلاً زیب و زینت کے لئے) یا کاروباری آلات کے لئے استعمال ہوں تو پھر بلا نزاع ان پر کوئی زکوٰۃ نہیں ، خواہ یہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں ۔ جیسا کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’لا زکوٰۃ فیما سوی الذھب والفضۃ من الجواھر کالیاقوت والفیروزج، واللؤلؤ والمرجان والزمرد والزبرجد والحدید والصفر وسائر النحاس والزجاج وان حسنت صنعھا وکثرت قیمتھا ولازکوٰۃ أیضاً فی المسک والعنبر وبہ قال جماھیر العلماء من السلف وغیرہم‘‘
(المجموع شرح المذہب: ج۵ص۴۶۴)
اسی طرح ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ :
’’فالزکوٰۃ في الحلی من الذھب والفضۃ دون الجوھر لأنھا لا زکوٰۃ فیھا عند أحد من أھل العلم فإن کان الحلی للتجارۃ قومہ بما فیہ من الجواھر لأن الجواھر لوکانت مفردۃ وھي للتجارۃ لقومت وزکیت‘‘ (المغنی: ج۴/ص۲۲۴ نیز دیکھئے الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:ج ۱/ ص ۵۹۵، موسوعۃ الاجماع: ۱/۴۶۷)
مذکورہ بالا اقتباسات کا حاصل یہ ہے کہ ہر طرح کے قیمتی موتی اور جملہ عطریات زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں بشرطیکہ یہ تجارت کے لئے نہ ہوں اور جمہور ائمہ سلف کا شروع سے یہی موقف رہا ہے۔ باقی رہا جواہرات کو سونے چاندی کے زیورات پر قیاس کرنے کا مسئلہ تو یہ قیاس درست نہیں ، اس لئے کہ زیورات میں استعمال ہونے والا سونا چاندی نقدی اور نموکی حیثیت بھی رکھتا ہے جبکہ ہیرے جواہرات میں یہ خاصیت نہیں پائی جاتی۔ اسی لئے متقدمین میں سے جو اہل علم