کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 18
کرکے دیکھا جائے کہ پانچ اونٹوں پر زکوٰۃ ہے، چالیس بکریوں پر زکوٰۃ ہے، پانچ وسق کھجور یاکشمش پر زکوٰۃ ہے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس عہدمیں زکوٰۃ کے تمام نصابوں سے قریب سونا ہے،چاندی نہیں ہے۔ پانچ اونٹوں اور چالیس بکریوں کی قیمت تقریباً (کم و بیش)چار سو دینار یا گنی [جُنیہ(پاؤنڈ/] مصری کرنسی) کے مساوی ہوگی تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شارع کی نظر میں چار اونٹوں یا اُنتالیس بکریوں کا مالک توفقیر ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہو لیکن جس کے پاس اتنی نقدی(یعنی چاندی کے حساب سے، ناقل) ہو جس سے وہ ایک بکری بھی نہ خرید سکتا ہو تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو؟ اور کس طرح اس حقیر مالیت کو غنی تصور کیا جاسکتا ہے؟ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں تحریر فرماتے ہیں : پانچ اوقیہ چاندی کو نصابِ زکوٰۃ اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ یہ مقدار ایک گھرانے کی سال بھر کی ضرورت کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اکثر علاقوں میں قیمتیں معتدل ہوں اور اگر آپ قیمتوں میں معتدل علاقوں کا جائزہ لیں تو آپ کو اس حقیقت کا اِدراک ہوجائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بھی کسی اسلامی ملک میں پچاس یا (اس سے) کم و بیش مصری(کرنسی)اور سعودی ریال یا پاکستانی اور ہندوستانی روپے٭ میں ایک گھرانے کا پورے سال کا گزر ہوسکتا ہے؟ بلکہ کیا ایک ماہ یا ایک ہفتہ کا بھی ہوسکتا ہے؟ بلکہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں جہاں کا معیارِ زندگی کافی بلند ہوچکا ہے، یہ رقم ایک متوسط گھرانے کی ایک دن کی ضرورت کے لئے بھی ناکافی ہے، تو اس رقم کا مالک شریعت کی نظر میں کیوں کر غنی متصور ہوسکتا ہے؟ یہ بہت ہی بعید از قیاس بات ہے! اس لئے مناسب یہی ہے کہ ہم اپنے اس عہد میں نصابِ زکوٰۃ کی پیمائش کے لئے سونے کو اصل قرار دیں ۔ اگرچہ چاندی سے نصابِ زکوٰۃ کے تقرر میں فقرا اور مستحقین کا مفاد ہے مگر اس میں مال کے مالکین پر بار بھی پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زکوٰۃ کے دہندگان صرف بڑے بڑے سرمایہ دار اور اغنیا ہی نہیں ہوتے بلکہ اُمت ِمسلمہ کے عام افراد زکوٰۃ دہندگان ہیں ۔‘‘ (فقہ الزکوٰۃ: ج۱/ ص۳۵۲ تا۳۵۴) جبکہ دوسری طرف بعض بلکہ اکثر و بیشتر اہل علم کا موقف یہ ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین چاندی کے حساب سے کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ ’’دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سونا چاندی دونوں زرِمبادلہ کے طور پراستعمال ہوتے تھے اور ان کی قیمتوں