کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 17
انہیں دو الگ ذاتیں قرار دیا وہ انہیں اکٹھا کرنے کے قائل نہیں اور جنہوں نے ایک ہی ذات کے حکم میں انہیں شمار کیا وہ انہیں کرنسی ہونے کی حیثیت سے اکٹھا کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ بہرحال اس مسئلہ میں کوئی صریح دلیل نہیں ملتی کہ انہیں باہم ملاکر نصاب بنایا جائے اور عہد ِصحابہ میں بھی ان کے مستعمل ہونے کے باوجود انہیں ملاکر نصاب بنانے کاکوئی واقعہ نہیں ملتا۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا تو یہی ہے کہ انہیں آپس میں ضم کر کے نصاب نہ بنایا جائے ۔واللہ اعلم! اگر چاندی کے ساتھ روپے(کرنسی) یا سامانِ تجارت وغیرہ بھی ہو تو پھر بھی یہ اختلاف تو ہے کہ ان تینوں چیزوں کو اکٹھا کیا جائے یا نہیں ، البتہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ سامانِ تجارت کی قیمت اور دیگر نقدی کو سونے یا چاندی میں سے کسی ایک کے ساتھ ملاکر زکوٰۃ دی جائے بشرطیکہ نقدی ملانے سیمجموعی رقم حدنصاب کو پہنچ جائے۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: بدایۃ المجتہد:۳ /۸۵ تا ۸۷،المغنی: ۴/ ۲۰۹ تا ۲۱۱، حاشیہ ابن عابدین: ۲/۳۴ اور حاشیہ الدسوقی: ۱/۴۵۵ موجودہ کرنسی اور نصابِ زکوٰۃ اب ایک عرصہ سے سونے، چاندی کے سکوں کی جگہ پیپر کرنسی نے لے رکھی ہے، اس لئے اب اسی نقدی پر زکوٰۃ ہوگی اور اس میں کوئی مؤثر اختلاف نہیں تاہم اس بات پر اختلاف ضرور ہے کہ موجودہ کرنسی کا نصاب سونے کے نصاب سے متعین کیا جائے یا چاندی کے نصاب سے؟ بعض فقہا کا خیال ہے کہ نصابِ زکوٰۃ کا تعین سونے سے کیا جائے گا اور اس کی وہ مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں جیسا کہ یوسف قرضاوی رقم طراز ہیں : ’’جبکہ بعض دیگر علما کی رائے یہ ہے کہ آج کل نصابِ زکوٰۃ کا اندازہ سونے سے ہونا چاہئے اس لئے کہ چاندی کی قیمت میں عہد ِنبوت کے بعد سے بہت زیادہ فرق آچکا ہے۔ کیونکہ تمام اشیا کی طرح چاندی کی بھی قیمت بڑھتی رہی ہے جب کہ سونے کی قیمت کافی حد تک مستحکم رہی ہے اور زمانے کے اختلاف سے سونے کے سکوں کی قیمت میں فرق نہیں آیا اور سونا ہر زمانے میں ایک ہی اندازے کا حامل رہا ہے۔ یہ رائے ہمارے اساتذہ ابوزہرہ[عبد الوہاب] خلاف اور[عبد الرحمن] حسن نے زکوٰۃ پراپنی تحقیق کے دوران اختیارکی ہے۔ مجھے بھی یہ قول بلحاظِ دلیل زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے اس لئے اگر مذکورہ اموالِ زکوٰۃ کا موازنہ