کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 15
(یعنی ساڑھے سات تولہ سونے اور ساڑھے باون تولہ چاندی ۔۔۔۔۔۔۔ناقل)سے کم بنتا ہے ۔ چنانچہ شیخ ابو بکر الجزائری نے ’الجمل فی زکوٰۃ العمل‘ (ص ۲۷،۲۸) میں اور دکتور عبد اللہ بن محمد بن احمد العطار نے ’الزکوٰۃ‘ میں بیس دینار کو ستر گرام سونے کے برابر اور دو سو درہم کو ۴۶۰گرام چاندی کے برابر قرار دیا ہے ۔ان حضرات نے ایک دینار کا وزن ،ساڑھے تین گرام سونا اور ایک درہم کا وزن 2.3گرام چاندی قرار دیا ہے ۔مفتی عبد الرحمن الرحمانی نے بھی اپنے رسالہ ’المیزان فی الاوزان‘ میں اسی کو درست قرار دیا ہے۔یہ مقدار عام معروف مقدار ساڑھے باون تولہ چاندی اور ساڑھے سات تولے سونے سے کافی کم ہے مگر تحقیق پر مبنی ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سونا یا چاندی اس نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ ادا کی جائے۔ ‘‘ معروف اوزان کے مقابلہ میں اس ’نئی تحقیق‘ پر ہمیں اختلاف ہے اس لیے کہ اس سلسلہ میں اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ایک درہم شرعی 7/10 دینار کے برابر ہوتاتھا اور درہم ودینار کا وزن معلوم کرنے کے لیے متقدمین کے ہاں جو یا چاولوں کے دانے استعمال ہوتے تھے۔ اس لیے چند حنفی اور ظاہری فقہا کے علاوہ باقی تمام اہل علم کا اس بات پربھی اتفاق رہا ہے کہ ایک دینار (مثقال) کا وزن جو کے ۷۲ دانوں کے برابرہے اور دینار کی مناسبت سے درہم کاوزن50.4جو کے دانوں کے برابر ہے۔(دیکھئے :مقدمہ ابن خلدون:ص۲۳۶) لیکن جب ۷۲ یا 50.4جو کے دانوں کو جدید پیمانوں پر تولا جاتا ہے تو دانوں کے چھوٹے بڑے ہونے کی وجہ سے وزن میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے حتی کہ اگر بعض نے ۷۲ دانے جو کو ساڑھے تین گرام کے برابر قرار دیا ہے تو بعض نے ۶۶ دانوں کو 4.25گرام ثابت کر دکھایا۔ گویا جب تک جو کے دانوں کا اختلاف رہے گا تب تک مذکورہ اوزان میں بھی اختلاف رہے گا۔اس کا سب سے مناسب اور معقول طریقہ یہی ہے کہ جس درہم اور دینار کے وزن کو ۷۲ اور 50.4دانوں کے برابر قرار دیا گیااور اُمت کا اس پر اجماع ہو گیا تھا ،اس درہم اور دینار کو تلاش کر کے دانوں کے دیسی طریقہ سے ان کا وزن کرنے کی بجائے اب جدید پیمانوں پر ان کا وزن نکال لیا جائے اور فی الواقع بعض محققین نے ایسا کیا بھی ہے۔ چنانچہ انہوں نے تحقیق کا حق ادا کرتے ہوئے لندن، برلن،پیرس وغیرہ کی لائبریوں اور عجائب گھروں