کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 14
کو ترجیح دی ہے جو ہم نے اوپر بیان کر دی ہے جب کہ سعودی عرب کے جید علما کا بھی یہی فتوی ہے کہ زیورات پر زکوٰۃ دی جائے گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائیں ۔ (دیکھئے: فتاویٰ ابن باز؛ج۱۴ص ۹۷،فتاوی اللجنۃالدائمۃ؛ ج۹ص ۲۶۵) سونے چاندی کا نصاب:اگرپانچ اوقیہ(تقریباًدو سو درہم)چاندی یا ۲۰ مثقال (تقریباً۲۰ دینار) سونا سال بھر موجود رہے ہوں تو ان پر چالیسواں حصہ (یعنی چاندی کے پانچ درہم اور سونے کا آدھا دینار) بطورِ زکوٰۃ دیا جائے گا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے : (i) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیس فیما دون خمس أواق من الورق صدقۃ (احمد:۳/۲۹۶، مسلم:۹۸۰) ’’پانچ اوقیہ (مساوی دو سو درہم) سے کم )ورق /چاندی) پر زکوٰۃ فرض نہیں ۔‘‘ (ii) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں اور ان پرایک سال کا عرصہ گزر جائے تو ان میں سے پانچ درہم بطورِ زکوٰۃ دو اور اسی طرح اگر تمہارے پاس بیس دینار سونا سال بھر رہا ہو تو اس میں نصف دینار زکوٰۃ ہے، اگر ایسا (یعنی یہ دونوں شرائط یا ان میں سے کوئی ایک شرط پوری) نہ ہو تو پھر زکوٰۃ فرض نہیں۔‘‘ (ابوداود:۱۵۷۳) واضح رہے کہ اس حدیث کی سند میں اگرچہ ضعف ہے تا ہم یہی مسئلہ اجماعِ امت سے بھی ثابت ہے ۔ (دیکھئے الاجماع لابن المنذر: ص ۴۴، موسوعۃ الاجماع:۱/۴۸۳) درہم و دینار کی مقداریں :جس طرح مختلف اَدوار میں درہم و دینار کے اوزان میں فرق پیدا ہوتا رہا ہے، اسی طرح ان سے حاصل مقداروں میں اہل علم کا اختلاف بھی رہا ہے۔ درہم جو چاندی کا سکہ ہوا کرتا تھا، اس کی مقدار ساڑھے باون تولہ چاندی کے حساب سے اور دینار جو سونے کا سکہ تھا،اس کی مقدار ساڑھے سات تولہ سونا کے حساب سے معروف ہے، لیکن بعض اہل علم نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے دونوں کا وزن اس سے کم نکالا ہے۔ جیسا کہ جماعۃ الدعوۃ کے نائب امیر مولانا عبد السلام صاحب اپنی کتاب’احکامِ زکوۃ وعشر‘ (ص۲۳،۲۴) میں رقمطراز ہیں : ’’لیکن تحقیق کے مطابق بیس دینار سونے اوردو سو درہم چاندی کا وزن مندرجہ بالا مقداروں