کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 13
کے برعکس بعض فقہا جن میں امام ابو حنیفہ بھی شامل ہیں ، زیورات پر زکوٰۃ کو فرض قرار دیتے ہیں اور بعض صحیح احادیث بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں ۔ مذکورہ بالا مسئلہ میں راقم کی تحقیق یہ ہے کہ زیورات پر عدم زکوٰۃ کے حوالہ سے جن روایات سے استشہاد کیا جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی بسند صحیح ثابت نہیں جب کہ اس کے مقابلہ میں بعض ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جن میں زیورات پر وجوب زکوٰۃ کی صاف تائید ہوتی ہے اور ان صحیح احادیث کی موجودگی میں زیورات کو ذاتی استعمال کی اشیا پر قیاس کر کے زکوٰۃ سے خارج قرار نہیں دیاجا سکتا۔ (اس سلسلہ میں جو صحیح احادیث ملتی ہیں ، بغرضِ اختصار ان میں سے ایک درج کی جاتی ہے: عمرو بن شعیب اپنے والد اور اپنے دادا کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ایک عورت اپنی بیٹی کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اوراس کی بیٹی کے ہاتھوں میں سونے کے دو موٹے کنگن تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے جواب دیا: نہیں ! تو آپ نے فرمایا : کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں روز قیامت ان کنگنوں کے بدلے آگ کے کنگن پہنا دیں ؟ تو اس نے وہ کنگن اتار کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ڈال دیئے اور کہا کہ میں انہیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے پیش کرتی ہوں ۔‘‘ (احمد؛ ۲/۱۷۸،۲۰۴، ابوداود؛ ۱۵۶۳، نسائی؛ ۲۴۷۹،بیہقی؛۴/۱۴۰) واضح رہے کہ اس حدیث کی تائید کرنے والی کئی اوراحادیث بھی موجود ہیں جنہیں شارحِ ترمذی مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے تحفۃ الاحوذی میں نقل کرنے کے بعداسی رائے
[1] سونے چاندی کے زیورات پر زکوٰۃسے متعلقہ احادیث کی صحت میں کلام ہونے کی بنا پر اس کا مناسب حل یہ بھی ہوسکتا ہیکہ ان میں زکوٰۃ کی ادائیگی مال کے حق کے طور پراگر نہ کی جائے تو کم ازکم اشخاص کے حق کے طور پر ضرور کردی جائے کیونکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی اشخاص کا حق کتاب وسنت سے ثابت ہے جس میں عام لوگ اکثر کوتاہی کرتے ہیں ۔جس کی و جہ سے غریب رشتہ دار اور متعلقہ خدام ومساکین بھی معاشرے میں بے اعتنائی کا شکار رہتے ہیں ۔ اگر زیورات کی زکوٰۃ نکال کر ایسے متعلقین پر اسے خرچ کر دیاجائے تو شرعی احتیاط پر عمل بھی ہو جائے گا اور کسمپرسی کے شکار مستحقین بھی مستفید ہو سکیں گے اور اس کا اجر بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں عظیم صدقہ کی صورت میں موجود ہے۔ اِن شاء اللہ (محدث)