کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 12
استعمالات موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے چاندی کے صرف دو مصرف جائز قرار دیتے ہوئے ان پر زکوٰۃ عائد فرمائی۔ ایک مصرف تو ان کا نقدی ہونا تھا اور دوسرا زیورات تھا۔ اگرچہ بعض شبہات کی بنا پر زیورات میں زکوٰۃ کے وجوب اور عدمِ وجوب کے بارے میں فقہا نے اختلاف بھی کیا ہے، تاہم نقدی ہونے کی حیثیت سے ان پر وجوبِ زکوٰۃ کے بارے میں اتفاقِ رائے موجود ہے اور اب چونکہ سونے، چاندی کی جگہ پیپر کرنسی نے لے لی ہے، اس لئے سونے چاندی پر قیاس کرتے ہوئے ان پربھی زکوٰۃفرض قرار دی جائے گی۔ باقی رہا سونا چاندی کا کسی اور محل میں استعمال مثلاً برتن اورآرائشی سامان، دیگر آلاتِ ضرورت وغیرہ تو ان سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔اور اگر کوئی شخص ان ممنوعہ چیزوں کو اپنے پاس رکھتا یا ان کی تجارت وغیرہ کرتا ہے تو اس کے ایک حرام کام کے ارتکاب کے باوجود ان چیزوں کی زکوٰۃ اس پر فرض ہے۔ البتہ اس میں سے بھی چند چیزیں مستثنیٰ ہیں ۔ ایک تو وہ جو ضرورت اور حاجت کی قبیل سے ہیں مثلاً ایک صحابی کی ناک کٹ گئی تو انہوں نے چاندی کی ناک لگوائی جس میں بدبو پیدا ہوگئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق انہوں نے سونے کی ناک لگوالی۔ (ابوداؤد؛۴۲۳۲، ترمذی؛۱۷۷۰) اسی طرح بعض صحابہ سے سونے کے دانت لگوانا اور داڑھوں کی بھروائی (Filling)کروانا بھی منقول ہے۔ (المغنی :۴/۲۲۷) اور دوسری استثنائی صورت آلاتِ حرب کی ہے کیونکہ احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ بات ثابت ہے کہ تلوار کا خول، قبضہ، دستہ وغیرہ میں سونے اور چاندی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (المغنی: ایضاً) زیورات پر زکوٰۃ سونے چاندی کے زیورات پر زکوۃ کے حوالہ سے اہل علم میں شروع سے اختلاف چلا آرہا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ فقہا کی ایک بڑی تعداد نے زیورات کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے دو طرح سے استشہاد کیاہے ایک تو بعض روایات سے استشہاد کیا ہے اور دوسرا اسے ذاتی استعمال کی اشیا پر قیاس کیا ہے۔ جب کہ ان