کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 11
رفتہ لوگوں نے اسے تجارت کا ذریعہ بنالیا حتیٰ کہ بعض ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ ایک ایک گھوڑا سو سو اونٹوں کے بدلے فروخت کیا جانے لگا چنانچہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے ان تجارتی گھوڑوں پربھی زکوٰۃ مقرر فرما دی۔ جبکہ کسی صحابی نے اس پر اختلاف نہ کیا بلکہ آپ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ وصول کرتے رہے۔ (فقہ الزکوٰۃ: ج۱ /ص۳۰۵) گھوڑوں کی زکوٰۃ کے حوالہ سے یہ بات یاد رہے کہ اگر گھوڑے آلاتِ تجارت کے طور پراستعمال ہوں مثلاً ٹانگوں وغیرہ میں جوتے جائیں یا اُجرت پر بار برداری کے لئے استعمال ہوں تو ان گھوڑوں کی اصل مالیت پر زکوٰۃ نہیں ہوگی بلکہ ان کی آمدن پر زکوٰۃ ہوگی اور اگر گھوڑے بذاتِ خود خرید و فروخت کے لئے رکھے ہوں تو ان کی کل مالیت پر زکوٰۃ ہوگی۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل ’تجارتی اَموال پر زکوٰۃ‘ کے ضمن میں آئے گی۔ لیکن اگر یہ افزائش نسل کے لئے ہوں اور جہاد یا ذاتی سواری کے استعمال کی بھی نیت نہ ہو تو ایسی صورت میں بعض فقہا نے انہیں اونٹوں پر قیاس کرتے ہوئے اونٹوں ہی کی شرح زکوٰۃ ان میں واجب قراردی ہے اورایسی صورت میں ہمیں بھی اس رائے سے اتفاق ہے۔ (دیکھئے ردّ المحتار: ج۲/ ص۲۵،۲۶) اسی طرح دیگر جانوروں مثلاً پولٹری فارم کی مرغیوں ، مچھلی فارم کی مچھلیوں اور ڈیری فارم کی بھینسوں کو بھی گھوڑوں پر قیاس کیا جائے گا یعنی اگر یہ جانور تجارت کے لئے ہیں تو ان کی کل مالیت پر سال گزرنے کے بعد چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ دیا جائے گا۔ جبکہ بھینسیں اگر افزائش نسل کے لئے ہوں اور ان میں دیگر شروطِ زکوٰۃ بھی پائی جائیں تو انہیں گائیوں پر قیاس کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اسی طرح اگر ہرن افزائش نسل کے لئے ہوں تو انہیں بکریوں پر قیاس کیاجائے گا اور اگر وہ تجارت کے لئے ہوں تو پھر انہیں مالِ تجارت پر قیاس کیا جائے گا۔ 2. سونا ،چاندی اور نقدی پر زکوٰۃ عرصہ دراز سے سونا چاندی جیسی قیمتی دھاتیں مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہوتی چلی آرہی ہیں مثلاً ان سے زیورات، آلات، برتن وغیرہ بھی بنائے جاتے رہے ہیں اور انہیں بطورِ نقدی (کرنسی) بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ عہد ِنبوی میں بھی ان کے یہ مختلف