کتاب: محدث شمارہ 275 - صفحہ 10
دیگر ’سائمہ‘جانوروں پر زکوٰۃ کامسئلہ
واضح رہے کہ احادیث میں جن جانوروں کی زکوٰۃ کا تذکرہ موجود ہے وہ صرف تین قسم کے ہیں یعنی اونٹ، گائے اور بکری اس کے علاوہ دیگر جانوروں کے بارے میں شریعت خاموش ہے تاہم سواری کے گھوڑے کو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ سے معاف قرار دیا ہے۔ چونکہ نزولِ وحی کے دور میں اہل عرب کے ہاں یہی تین قسم کے جانور پالے جاتے تھے، اس لئے بطورِ خاص ان کا تذکرہ ہمیں ملتا ہے جبکہ ان کے علاوہ دیگر جانور مثلاً گدھے، خچر، پولٹری فارم کی مرغیوں اور مچھلی فارم کی مچھلیوں وغیرہ کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہیں ۔ متقدمین میں سے ظواہر اور متاخرین میں سے امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اور نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ جمہور فقہائے اُمت نے اوّل الذکر نوع سے تعلق رکھنے والے جانوروں پرقیاس کرتے ہوئے ثانی الذکر نوع کے حیوانات پر بھی دیگر شرائط کی موجودگی میں زکوٰۃ فرض قرار دی ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلے اور عہد ِصحابہ ہی میں جو نیا مسئلہ سامنے آیا وہ گھوڑوں کی زکوٰۃ کا مسئلہ تھا۔نزولِ وحی کے دور میں چونکہ گھوڑا اہل عرب کے ہاں ایک کمیاب جنس تھی اور اس کااستعمال بھی یا تو ذاتی سواری کے لئے ہوتا تھا یاپھر جنگ و حرب کے لئے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی زکوٰۃ معاف فرما دی تاکہ اگر وہ ذاتی استعما ل کے لئے ہے تو پھر مالک (صاحب ِگھوڑا) کو مشقت نہ ہو اور اگر وہ جہاد کے لئے ہے تو اس کی مزید حوصلہ افزائی ہو۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
’’لیس علی المسلم صدقۃ فی عبدہ ولا فی فرسہ‘‘ (بخاری:۱۴۶۴)
’’مسلمان پراس کے غلام اور گھوڑے میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے‘‘
لہٰذا دور حاضر میں بھی جن صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں جہاد یا ذاتی سواری کے لئے گھوڑا رکھا جاتاہے، ان کے مالکان پر اس کی زکوٰۃ لاگو نہیں ہوگی۔ اِلا یہ کہ وہ اسے تجارت کے لئے استعمال کرنے لگیں (جیسا کہ آئندہ سطور میں آرہا ہے)
جب ایران کی فتوحات شروع ہوئیں اور کثیر تعداد میں گھوڑے حاصل ہونے لگے تو رفتہ