کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 30
اس رائے کے قائل ہیں کہ جب ایسا مال دوبارہ ملکیت میں آجائے توگذشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ نکالی جائے گی لیکن یہ رائے نہ صرف یہ کہ مرجوح ہے بلکہ تکلیف ما لایطاق بھی ہے۔ کیونکہ جب ایک مال کسی شخص کے ملکیت میں رہا ہی نہیں اور ایک عرصہ تک اسی وجہ سے اس مال سے مزید نفع حاصل کرنے پربھی وہ قادر نہ رہا تو پھر اس سارے عرصہ کی زکوٰۃ آخر کیوں دی جائے؟ اور ویسے بھی قرآنِ مجید نے زکوٰۃ کے حوالے سے یہ بات کہی ہے کہ ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً…﴾ اور ﴿وَفِیْ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ…﴾ اور﴿ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ…﴾یعنی زکوٰۃ اس مال پر ہے جو انسان کی ملکیت میں ہو جبکہ سال گذرنے کی شرط (جو آگے آرہی ہے) دیگر احادیث سے ثابت ہے،لیکن جو مال انسان کی ملکیت ہی میں نہ رہا یا اس پر ایک سال کا عرصہ نہیں گزرا تو پھر اس پر اصولی طور پر زکوۃ فرض نہیں ۔
3. مال’ نامی‘ (نشوونما کا متحمل) ہو
یعنی زکوٰۃ اس مال پر دی جائے گی جو بالفعل یا بالقوۃ نشوونما کے قابل ہویا دوسرے لفظوں میں ا س مال سے زکوٰۃ دی جائے گی جس میں نمو ِحقیقی یا نمو ِ تقدیری کی خاصیت پائی جائے۔ نمو ِحقیقی سے مراد یہ ہے کہ حقیقی طور پر اس مال کی افزائش اور نشوونما ہوتی رہے مثلاً جانور بذریعہ پیدائش، مال و دولت بذریعہ تجارت اور زمین بذریعہ پیداوار افزائش حقیقی کی خاصیت رکھتی ہے جبکہ نمو ِتقدیری کا معنی یہ ہے کہ اس میں افزائش کی خاصیت بالفعل تو موجود نہ ہو مگر بالقوۃ اس میں یہ خاصیت پائی جاتی ہو مثلاً نقدی، کرنسی وغیرہ ایسی اشیا ہیں جن میں از خود اضافہ اورافزائش تو نہیں ہوتی مگر ان میں افزائش کی خاصیت موجود ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ اگر انہیں تجارت میں لگایاجائے تو افزائش و نمو حاصل ہوسکتی ہے۔ زکوٰۃ کے لئے ’مالِ نامی‘ کی شرط کی دلیل کیاہے، اس ضمن میں علامہ یوسف قرضاوی رقم طراز ہیں کہ
’’فقہاءِ کرام نے یہ شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ِقولی اور سنت ِعملی سے اَخذ کی ہے اور اسی سنت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین کا عمل رہا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی استعمال میں آنے والی اشیا پر زکوٰۃ واجب نہیں فرمائی، جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے کہ ’’کسی مسلمان پراس کے