کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 3
وہ خود ایک مختصر عرصے کے لئے پاکستان کے صدر بن گئے۔ اس کے کچھ ہی روز بعد جنرل محمد ایوب خان نے انہیں برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ایوب خان کے زوال پر جنرل محمدیحییٰ خان نے زمامِ اقتدار سنبھالی۔ ان کے دورِ حکومت میں پاکستان کی افواج کو اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ۱۹۷۷ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے بھٹو حکومت کو برطرف کردیا بعد ازاں چیف مارشل ایڈمنسٹرسے خود صدرِ پاکستان بن گئے۔ جبکہ ۱۲/اکتوبر ۱۹۹۹ء کو جنرل پرویز مشرف نے اسی طرح میاں محمد نوازشریف کی سول حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔
تمام فوجی حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو قانونی شکل دینے کے لئے آئین میں تبدیلیوں اور گنجائشیں پیدا کرنے کا وطیرہ اپنایا۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا۔ آئین میں کی گئی یہ تبدیلیاں اس وقت ایک دستوری بحران کی صورت اختیار کرچکی ہیں ۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان گذشتہ تقریباً ایک سال سے مذاکرات جاری ہیں ۔ بہت سی باتوں پر اتفاقِ رائے ہوچکا ہے یا خاموشی اختیار کی جارہی ہے لیکن چند ایک احکامات ایسے ہیں جنہیں ہضم کرنا سیاسی جماعتوں کے لئے سخت مشکل ہے اور انہی نکات پر ایک ایسا ڈیڈلاک پیدا ہوچکا ہے جس نے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل پر بھیانک سائے مسلط کردیے ہیں ۔
یہ آئینی بحران کیا ہے؟ پرویز مشرف حکومت نے آئین میں کیا کیاتبدیلیاں کی ہیں ؟وہ کون سے آئینی اقدامات ہیں جو بحران کی بنیاد بن رہے ہیں ۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو زبانِ خلق پر مچل رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے کئے جانے والے ان اقدامات کاجائزہ لیا جائے تو جو صورت حال اُبھر کر سامنے آتی ہے، اس کی مختصر داستان کچھ اس طرح سے ہے :
عبوری آئینی حکم نمبر۱ …مجریہ ۱۹۹۹ء
یہ حکم نامہ ۱۴/اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اسلام آباد سے جاری کیا گیا۔ اس حکم کے ابتدائیہ میں کہا