کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 29
7. وہ مال مقررہ نصاب کو پہنچ چکا ہو اس کی مزید تفصیل درج ذیل ہے: 1. مال متعین فرد کی ملکیت ہو اس کامعنی یہ ہے کہ جس مال سے زکوٰۃ نکالنا فرض ہے وہ مال کسی خاص شخص کی ملکیت ہونا چاہئے۔ اگر وہ مال کسی خاص شخص کی ملکیت نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ ادا نہ کی جائے گی مثلاً وقف شدہ اموال، بیت المال، ہسپتال وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جوفردِ واحد کی ملکیت نہیں ہوتیں بلکہ مجموعی طور پر یہ تمام مسلمانوں کے لئے وقف ہوتی ہیں ، اس لئے ان سے زکوٰۃ نہیں نکالی جائے گی اور نہ ہی گذشتہ چودہ صدیوں میں کوئی ایسی مثال ہمیں ملتی ہے کہ کسی حاکم وقت نے بیت المال سے یا ہسپتال وغیرہ کی آمدن سے زکوٰۃ ادا کی ہو۔ 2. ملک ِتام حاصل ہو زکوٰۃ اس مال پرفرض ہوگی جوصاحب ِمال کی کامل ملکیت میں ہو۔ خواہ یہ ملکیت قبضہ کی صورت میں ہو یا غیر قبضہ کی صورت۔ لیکن ملکیت بہرحال ایسی ہونی چاہئے کہ مالک کو اس مال پر تصرف کا پورا اختیار ہو اور اسے ہی فقہا کی اصطلاح میں ’ملک ِتام‘ کہا جاتا ہے۔ گویا کوئی ایسا مال جو گم ہوجائے یا ضائع ہوجائے یا ا س پر کوئی اور تسلط جما لے یا چوری ہوجائے یا ناقابل واپسی قرض کی سی حیثیت اختیار کرجائے تو ایسی تمام صورتوں میں اس پر ملک ِتام کا اطلاق ہرگز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ایسے مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، اِلا یہ کہ جب بھی ایسا گمشدہ مال واپس مل جائے، چوری شدہ مال برآمد ہوجائے، قرض میں ڈوبا ہوا مال واپس ہاتھ آجائے تو پھر ان پر دیگر شرائط ِزکوٰۃ کی روشنی میں زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ دیگر شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر ان پر ملکیت میں آنے کے بعد سال نہیں گزرا تھا تو سال گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ جمہور فقہا کا فیصلہ تو یہی ہے اور ایک سال گزرنے کی شرط سے متعلقہ احادیث وآثار سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ تاہم بعض فقہا اس کے برعکس