کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 28
کہا ں سے آیا؟ اس مال سے آگے جو وہ مزید نفع کما رہا ہے تو یہ نفع، بڑھوتری اور برکت کون پیدا کررہا ہے؟ اگر تو انسان کا اللہ پر ایمان مستحکم ہے توکچھ بعید نہیں کہ انسان کو بات فوری طور پر سمجھ میں آجائے اور وہ خوشی سے اس فرض کو ادا کرنا شروع کردے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ زکوٰۃ، جو پہلے ہی بہت سارے اصحابِ ثروت کے لئے سنگ ِگراں کی حیثیت رکھتی ہے، کی فرضیت کے حوالہ سے کچھ نئے نظریات سامنے آرہے ہیں ، مثلاً ذاتی رہائش، ذاتی سواری، آلاتِ تجارت وغیرہ پر بھی زکوٰۃ کو محض اس لئے فرض قرار دیا جانے لگا ہے کہ یہ تمام اشیا بھی نہایت قیمتی ہیں اور ان کا مالک ’غنی‘ کہلانے کا حقدار ہے اور غنی ہی اسے چونکہ زکوٰۃ لی جاتی ہے لہٰذا قیمتی سواری اور قیمتی رہائش کے مالک سے بھی زکاۃ لی جائے گی۔ ان شبہات کی کیا حیثیت ہے، اور اس ضمن میں پیش کئے جانے والے دلائل کا کیا معیارہے اس کی تفصیل آئندہ سطور میں پیش کی جارہی ہے۔اس ضمن میں موضوعِ بحث کو سمجھنے کے لئے زکوٰۃ سے متعلقہ بنیادی شرائط اور حدود و قیود پر تفصیلی روشنی ڈال دی گئی ہے اور متعلقہ شبہات کی تردید بھی ان کے مقامات پر کر دی گئی ہے۔ شروطِ زکوٰۃ متقدم فقہا میں سے جمہور فقہا نے زکوٰۃ کی فرضیت کے حوالہ سے جن شروط کو متفقہ طور پر بیان کیا ہے وہ یہ ہیں : 1. زکوٰۃ سے متعلقہ مال متعین فرد کی ملکیت ہو 2. اس مال پر اسے ملک ِتام حاصل ہو 3. وہ مال، نامی (یعنی نشوونما کا متحمل) ہو 4. وہ مال ضروریاتِ زندگی (حاجاتِ اصلیہ)سے زائد ہو 5. اس مال پر ایک سال کا وقفہ گزر چکا ہو 6. زکوٰۃ ادا کرنے میں کوئی مانع (قرض وغیرہ کی موجودگی) نہ ہو۔