کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 27
انتہائی معمولی اور متعین حصہ بطورِ زکوٰۃ لیا جاتا ہے، وہاں یہی جمع شدہ حصص معاشرے ہی کے ان افراد کی فلاح و بہبود اور کفالت و تربیت پر صرف ہوتے ہیں جو نہ صرف غربت و افلاس کا شکار ہوتے ہیں بلکہ بعض دیگر وجوہات کی بناپر معاشرے کے فعال رکن بننے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ معاشرے کے اس کمزور اور مستحقِ زکوٰۃ طبقہ سے اگر زکوٰۃ کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے دریافت کیا جائے تو یہ طبقہ اسلام کے نظامِ زکوٰۃ کو ایک بہت بڑی نعمت قرار دے گا۔ جبکہ اس کے برعکس وہ طبقہ جو زکوٰۃ دینے کا اہل قرار پاتا ہے اس کا نکتہ نظر اوّل الذکر سے کہیں مختلف ہوتا ہے۔ اس لئے کہ زکوٰۃ دینے سے ان کے مال میں کمی ہوتی ہے جسے وہ خواہ مخواہ کی چٹی اور بارِ گراں محسوس کرتے ہیں ۔ اور ایسے لوگ تو آٹے میں نمک برابرہیں جو زکوٰۃ دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ اور ایسے لوگوں کو بھی اگر یہ کہہ دیا جائے کہ زکوٰۃ فرض نہیں بلکہ مستحب ہے تو ان کی تعداد میں بھی واضح کمی پیدا ہوجائے گی۔ بنیادی طور پر انسان حریص ہے اور مال سے محبت اسکی فطری کمزوریوں میں شامل ہے۔ اسلام نے انسان کی اس فطری کمزوری پر قابو پانے کے لئے جن ذرائع کو اختیار کیا وہ یہ ہیں : 1. زکوٰۃ کو ’فرض‘ قراردیا 2. صرف اتنے مال پر زکوٰۃ کو فرض کیا جو انسان کی ضرورت سے زائد ہو 3. آلات پیداوار اور ذاتی استعمال کی چیزوں کو اس سے مستثنیٰ کردیا 4. صرف اتنا مال بطورِ زکوٰۃ فرض کیاجو کل مال کے مقابلے میں انتہائی معمولی (یعنی اڑھائی فیصد) ہو 5. زکوٰۃ فر ض کرنے کے باوجود اس کی فضیلتیں بیان کیں 6. زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کو دنیاوی سز ا اور اُخروی عذاب سے متنبہ کیا مذکورہ باتوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام نے زکوٰۃ کی شکل میں انسان پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود اگر انسان یہ سمجھتا ہے کہ یہ اڑھائی فیصد مال بطورِ زکوٰۃ دینا ظلم ہے تو پھر اسے یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ اس کے پاس موجود ۱۰۰ فیصد مال