کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 25
میں ان سے اپنے لئے وظیفہ مقرر کرنے کے متعلق بات کرتا رہا وہ اپنے جوتوں سے کنکریاں برابر کرتے رہے یہاں تک کہ مقرر کردہ لوگوں نے آکر صفوں کے برابر ہونے کی خبر دی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا :صف میں صحیح طو ر پرکھڑا ہوجا، پھر آپ نے تکبیر تحریمہ کہی۔
(المؤطا: امام مالک،کتاب قصر الصلوۃ فی السفر،باب ما جاء فی تسویۃ الصفوف:۱/۱۰۱)
5. بچوں کے لیے علیحدہ صف بندی کی ضرورت نہیں ، بڑوں کے ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں ۔منیٰ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بڑوں کی صف میں شامل ہوتے تھے۔ فرمایا: ودخلت فی الصف فلم ینکر ذلک علی أحد ’’میں صف میں داخل ہوا، پس مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔‘‘
نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما جو ابھی بچے تھے، کو اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا اور حضر ت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
فقام رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم والیتیم معی والعجوز من ورائنا فصلی بنا رکعتین (صحیح بخاری ، باب وضوء الصبیان،رقم الحدیث ۸۶۰)
6. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام سے پہلے سراٹھانے والے کو (کیا) اس بات سے ڈر نہیں لگتا ہے کہ اللہ اس کا سر کہیں گدھے کے سر سے نہ بدل دے۔ (بخاری:۶۹۱)
اس سے معلوم ہوا امام سے سبقت کرنا سخت وعید کا باعث ہے۔
7. فاتحہ کے علاوہ آدمی کو اختیار ہے نماز میں جتنی آیات چاہے تلاوت کرسکتا ہے اور اگر نہ بھی ملائے تب بھی نماز درست ہے۔