کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 24
النوم کہا جائے اور ایک کی صورت میں موجودہ اذان میں ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ: کان فی الأذان الاول من الصبح: الصلاۃ خیر من النوم(طحاوی:۱/۱۰۳)، بیہقی :۱/۴۲۲) اور ابو محذورہ کی روایت میں ہے : أن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم علمہ فی الأذان من الصبح الصلاۃ خیر من النوم (طحاوی:۱/۱۰۳ ، بیہقی :۱/۴۲۲)
3. نیز صبح کی پہلی اذان کا تعلق صرف رمضان سے نہیں ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رمضان کے علاوہ بھی کثرت سے نفلی روزے رکھا کرتے تھے۔ اذانِ بلالی میں فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا کے الفاظ محض اشتباہ دور کرنے کے لئے ہیں کہ بلالی اذان سے کھانا پینا حرام نہیں ہوتا۔ ( ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح: ۱/۲۸۱،۱/۴۴۴)
4. امام کا فرض ہے کہ وہ خود نمازیوں کی صفیں سیدھی کرے، یہاں تک کہ نمازی صف بندی سیکھ جائیں ۔حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں برابر کیا کرتے تھے حتیٰ کہ ایسا معلوم ہوتا کہ آپ ان سے تیر کی لکڑی برابر فرما رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہا تاوقتیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ چکے ہیں ۔ پھر ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور تکبیر کہنے ہی والے تھے کہ ایک آدمی کا سینہ صف سے نکلا ہوا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! تم اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کرلیا کرو ورنہ اللہ تمہارے درمیان مخالفت ڈال دے گا۔ (مسلم:۹۷۸) نیز صفوں کی درستگی کے لئے امام کو جماعت کی طرف چہرہ کرنا چاہئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نماز کی اِقامت ہوگئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ ہماری طرف کرکے فرمایا:
’’ تم لوگ اپنی صفوں کو درست کرو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ میں تمہیں اپنی پیٹھ پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں ۔‘‘ (بخاری:۷۱۹)
اور صفوں کی درستگی کے لئے امام کسی اورکو بھی مقرر کرسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو صفیں برابر کرنے کا حکم دے دیتے تھے اور جب لوگ لوٹ کر خبر دیتے کہ صفیں برابر ہوگئیں ہیں اس وقت تکبیر کہتے۔
(المؤطا امام مالک:کتاب قصر الصلوۃ فی السفر،باب ما جاء فی التسویۃ الصفوف:۱/۱۰۱)
راوی بیان کرتا ہے کہ میں عثمان بن عفان کے ساتھ تھا کہ نما زکے لئے تکبیر ہوئی اور