کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 23
3. کیا تہجد کی اذان کا تعلق خاص رمضان سے ہے؟
4. صفیں درست کرانے کے لئے امام کے کیا فرائض ہیں ؟
5. جماعت میں کیا بچوں کے لئے علیحدہ صف بنانا چاہئے؟
6. مقتدی اگر امام سے تقدیم کریں تو ان کے لئے کیا وعید ہے؟
7. جہر نمازوں میں کم از کم اور زیادہ سے زیادہ کتنی آیات تلاوت کی جاسکتی ہیں ؟
جوابات1 :شرع میں تہجد کی اذان کا ثبوت نہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے مختلف اوقات میں تہجد پڑھتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
وکان لاتشاء أن تراہ من اللیل مصلیا الا رأیتہ ولا نائما الارأیتہ
’’اگر تم رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکتے ہو اور اگر سویا ہوا دیکھنا چاہتے تو دیکھ سکتے ہو۔‘‘
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
ما ألفاہ السحر عندی الا نائما تعنی النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم
’’ میرے پاس تو سحر کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہی رہے۔‘‘(بخاری: باب من نام عندالسحررقم الحدیث :۱۱۳۳)
یہ احادیث اس امر کا واضح ثبوت ہیں کہ نماز تہجد کا وقت متعین نہیں اس سے معلوم ہوا کہ تہجد کے لئے اذان بھی نہیں اور جہاں تک بلالی اذان کا تعلق ہے سو حدیث میں اس کے دو مقصد بیان ہوئے ہیں ۔ تہجد گزار تہجد ختم کردیں لیرجع قائمکم اور سوئے ہوئے بیدار ہوجائیں (ولینبہ نائمکم) (بخاری باب الاذان قبل الفجر رقم الحدیث :۶۲۱)
اسکے علاوہ تیسرا کوئی مقصد نہیں ۔ دونوں اذانوں میں وقفہ کے بارے میں نسائی میں ہے:
انہ لم یکن بینہا الا أن ینزل ھذا ویصعد ھذا
یعنی:’’دونوں صرف اتنا ہی وقفہ ہوتا کہ ایک اترتا اور دوسرا چڑ ھ جاتا…‘‘
مراد بہت کم وقفہ ہوتا تھا۔ مبالغہ پر محمول کیا جائے تو قریباً بیس پچیس منٹ۔
2. جہاں صبح کی دو اذانوں کا اہتمام ہو۔ وہاں پہلی اذان میں الصلاۃ خیر من