کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 20
دار الافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی
٭ آگ سے پکی سلوں یا لکڑی کو قبر میں استعمال کرنا؟
٭ باپ کے قاتل کا وراثت میں حصہ ؟
٭ دوسری بیوی کی پچھلی بیٹی کا پہلی بیوی کے بیٹوں پر پردہ ؟
آگ سے پکی سلوں یا لکڑی کو قبر میں استعمال کرنا؟
٭ سوال:کیا آگ سے پکی چیز کو قبر میں استعمال کیا جاسکتاہے یا نہیں ؟ جیسے سیمنٹ کی سلیں وغیرہ
جواب: جس چیز کو آگ نے چھوا ہو، اس کو قبر میں استعمال نہیں کرنا چاہئے۔چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مرض الموت کی حالت میں فرمایاتھا:
الحدوا لي لحداً وانصبوا علیّ اللبن نصبا کما صنع برسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم (۷/۳۴)
’’میری قبر بغلی بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کچی اینٹیں لگائیں گئیں تھیں ۔‘‘
شارحِ مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وقد نقلوا أن عدد لبناتہ صلی اللّٰه علیہ وسلم تسع
’’اہل علم نے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی (قبر مبارک کی )کچی اینٹوں کی تعدادنو تھی۔‘‘
اللبن کی تعریف اہل علم نے یوں بیان کی ہے: المضروب من الطین مربعا للبناء قبل الطبخ فإذا طبخ فھو الآجر( اتحاف الکرام: ص۱۶۰)
’’مربع شکل میں مٹی سے بنی ہوئی اس اینٹ کو کہتے ہیں جو آگ پر پکی ہوئی نہ ہو ۔جب پک جائے تو اُسے (لبن کی بجائے) آجر (پختہ اینٹ،ٹائل)کہتے ہیں ۔‘‘
مختصر الخرقی میں ہے : ولایدخل القبر آجرا ولا خشبا ولا شیئا مستہ النار (مع المغنی وبشرح الکبیر :۲/۳۸۴)