کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 19
اس ضمن میں کوئی سٹے آرڈر جاری کرسکے گی۔ اگر ریفرنڈم کے کسی معاملے پر کوئی تنازعہ ہوبھی تو اس کا فیصلہ کوئی عدالت نہیں ، الیکشن کمیشن کر ے گا۔ پاکستان کا آئین یا کوئی اور قانون اس حکم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔ مزید یہ کہ اگر ریفرنڈم کروانے میں کوئی اور مشکل سامنے آتی ہے تو جنرل پرویز مشرف کو اسے دُور کرنے کے لئے مناسب احکام جاری کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اس آرڈر کے ساتھ ووٹ پرچی کا ڈیزائن بھی تجویز کیا گیا تھا جو حسب ِذیل ہے: ریفرنڈم ۲۰۰۲ء فیصلہ آپ کا بیلٹ پیپر مقامی حکومت کے نظام کی بقا،جمہوریت کے قیام، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمے اور قائداعظم کے تصور کے تکمیل کے لئے… کیا آپ صدر جنرل پرویز مشرف کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدرِ پاکستان بنانا چاہتے ہیں ؟ ہاں / نہیں ۲۵/اپریل ۲۰۰۲ء کو جنرل پرویز مشرف نے مذکورہ بالا ریفرنڈم آرڈر میں ترمیم کرکے ووٹر پر سے شناختی کارڈ رکھنے کی پابندی ختم کردی۔ اور قرار دیا کہ شناختی کارڈ اگر نہ ہو تواس کے متبادل کے طور پر ملازمت کی صورت میں دفتر کا جاری کردہ کارڈ، کالج کا کارڈ یا تعلیمی ادارے کے سربراہ کا سر ٹیفکیٹ، ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ، گریڈ ۱۷ کے کسی افسر کا جاری کردہ سندنامہ یا ناظم یا نائب ناظم بلدیاتی حکومت کا جاری کردہ سر ٹیفکیٹ دکھا کر ووٹ ڈالا جاسکے گا۔ ریفرنڈم آرڈر پر عمل درآمد کے لئے الیکشن کمشنر آف پاکستان، بلدیاتی حکومتیں اور سرکاری و نیم سرکاری ادارے متحرک کردیے گئے اور ریلوے سٹیشنوں ، عوامی جگہوں ، سکولوں ، بڑے بڑے دفاتر، ٹیلی وژن اور ریڈیو سٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کی سہولت مہیا کردی گئی۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کو بذریعہ ڈاک بھی ریفرنڈم میں حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی۔ اس طرح مقررہ تاریخ پر چیف ایگزیکٹو جناب جنرل پرویز مشرف صاحب ۹۵ فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرکے پانچ سال کے لئے بطورِ صدرِ پاکستان اپنے عہدے پر متمکن ہوگئے۔ یاد رہے کہ ریفرنڈم آرڈر میں اس بات کا کوئی جواب موجود نہیں تھا کہ اگر قوم کی اکثریت ’ہاں ‘ کی بجائے ’نہیں ‘ پر مہر لگاتی ہے تو پھر کیا ہوگا؟ [ڈاکٹر ظفر علی راجا، ایڈووکیٹ]