کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 18
طرف پیش قدمی اور سیاسی تعمیر نو کے لئے مناسب اقدامات ضروری ہوگئے ہیں ۔ اس کے علاوہ تشدد پسندی اور فرقہ واریت کا مقابلہ کرنے اور ایک معتدل معاشرے کے قیام جیسے مقاصد بھی پیش نظر ہیں ۔ اس لئے ملک کے اعلیٰ ترین مفاد میں ضروری ہوگیا ہے کہ عوام سے رجوع کیا جائے اور بذریعہ ریفرنڈم ایک عوامی مینڈیٹ حاصل کیا جائے تاکہ جنرل پرویز مشرف بطورِ صدر پاکستان اپنی فرائض دہی کو جاری رکھ سکیں ۔ لہٰذا ۳۰/اپریل ۲۰۰۲ء کو ریفرنڈم منعقد ہوگا۔ اس روز تک ہر وہ پاکستانی شہری جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ چکا ہو اور شناختی کارڈ کا حامل ہو، ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کااہل متصور ہوگا۔
اس حکم کے مزید اہم نکات حسب ِذیل تھے:
1. یہ کہ ریفرنڈم کے لئے پورا پاکستان ایک ہی حلقہ انتخاب تصور کیا جائے گا اور ملک بھر کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی پاکستانی ووٹ ڈل سکے گا۔
2. ریفرنڈم کا سوال جو بیلٹ پیپر پرشائع ہوگا وہ اُردو زبان میں ہوگا۔ البتہ صوبہ سندھ میں اگر ووٹر چاہیں تو ووٹ کی پرچی سندھی زبان میں بھی مہیا کی جاسکے گی۔
3. سوال کا جواب صرف ہاں اور ناں میں دیا جاسکے گا۔ ہاں یا ناں کی مہر الیکشن کمیشن کی طرف سے مہیا کی جائے گی جو ووٹ پرچی پربنائی گئی مخصوص جگہ پر ثبت کرنا ہوگی۔
ریفرنڈم آرڈر کی دفعہ ۴ میں کہا گیا تھا کہ اگر ووٹروں کی اکثریت نے ہاں کے خانے میں مہر لگائی تو یہ سمجھا جائے گا کہ پاکستان کے عوام نے جنرل پرویز مشرف کو پانچ سال کے لئے بطورِ صدر مملکت فرائض سرانجام دینے کا مینڈیٹ جاری کردیا ہے۔ پانچ سال کی مدت اس دن سے شروع ہوگی جس دن منتخب شدہ مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ (جو کہ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں عالم وجود میں آنے والی ہے) اپنا افتتاحی پہلا ا جلاس منعقد کرے گی؛ جیسا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں ہدایت کی گئی ہے ۔
ریفرنڈم آرڈر کی دفعہ ۵ میں صراحت کی گئی کہ ریفرنڈم آرڈر کو نہ تو ملک کی کسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا اور نہ اس کی قانونی حیثیت پر کوئی سوال اٹھایا جائے گا، نہ ہی کوئی عدالت