کتاب: محدث شمارہ 274 - صفحہ 12
گے۔ گورنر کی طرف سے نافذ کردہ کسی بھی قانون کو اگر چیف ایگزیکٹو بدلناچاہئیں ، اس میں ترمیم کرنا چاہیں یا سرے سے اسے ختم کرنا چاہیں تو متعلقہ گورنر چیف ایگزیکٹو کی ہدایت پرعمل کرنے کا پابند ہوگا۔
۲۱/اگست ۲۰۰۰ء کو جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے سول ملازمتوں میں بھرتی کے لئے مقررہ عمر میں اضافے کا اختیار حاصل کرلیا۔ اور اس سلسلے میں پہلے سے موجود ضوابط مجریہ ۱۹۹۳ء میں ترمیم کردی گئی۔ ایک اور آرڈیننس نافذ کیا گیا جس کے ذریعے حکومت کو یہ خصوصی اختیار حاصل ہوگیا کہ وہ جس ملازم کو چاہے ان اختیارات کے ذریعے ملازمت سے برخواست کرسکے۔ ۲۱/اگست کو اس سلسلے میں ایک اضافی آرڈیننس جاری کیا گیا اور برخواست ہونے والے ملازمین کو حکومت کے نامزد کردہ افسران کے سامنے برخاستگی کے خلاف عرضداشت پیش کرنے کا حق دیا گیا۔
۶/جولائی ۲۰۰۲ء کو چیف ایگزیکٹو نے حکم نمبر ۱۹ جاری کیا۔ اس حکم کی دفعہ ۲ میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص دو مرتبہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہ چکا ہے یا دو مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہوچکا ہے یا ایک مرتبہ وزیراعظم اور ایک مرتبہ وزیراعلیٰ رہ چکا ہے، وہ ان عہدوں پرنئے سرے سے منتخب ہونے کے لئے نااہل سمجھا جائے گا۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس نے ان عہدوں پر اپنی آئینی معیاد پوری کی تھی یا نہیں ؟
ججوں کے لئے مراعات
۶/ دسمبر ۲۰۰۰ء کو پرویز مشرف حکومت نے بذریعہ صدرِ مملکت حکم نمبر ۲ (مجریہ ۲۰۰۰ء) جاری کیا۔ جس میں ججوں کی ملازمتوں سے متعلق پہلے سے موجود قانون میں تبدیلی کردی گئی اور قرار دیا گیا کہ اگر کوئی پنشن یافتہ ریٹائرڈ جج حکومت ِپاکستان کے تحت یا کسی صوبہ کے تحت یا پھر حکومت کے زیر انتظام چلنے والے کسی ادارے میں خدمات انجام دینے پر مامور کیا گیا ہے تو وہ موجودہ عہدے پرتنخواہ، الاؤنسز اور تمام مراعات بھی حاصل کرنے کا حقدار ہوگا اور بطورِ جج ریٹائرمنٹ کے بعد جو پنشن اسے ملنا تھی، وہ پوری پنشن بھی وصول کرنے کا استحقاق رکھے