کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 9
نے استعماری طاقتوں کے زیراثر فلسطین کو تقسیم کردیا تو اسرائیل نے جو علاقہ فلسطین کی عرب ریاست کو دیا تھا اس کے ۲۱ فیصد علاقہ پربین الاقوامی قانون کے خلاف قبضہ کرلیا، کسی بھی استعماری قوت نے اسرائیل کی اس غنڈہ گردی پر اُسے نہ روکا، اصل میں یہ سب کچھ وہ ان کی شہ پرہی کررہا تھا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی ملک کسی ملک کی زمین کو طاقت کی بنیاد پر قبضے بھی نہیں لے سکتا، مگر اسرائیل اس کی شرم ناک حد تک خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ ۱۴/ مئی ۱۹۴۸ء کو جو اسرائیلی ریاست وجود میں آئی، وہ اقوامِ متحدہ کی قرارداداروں کے مطابق نہیں تھی۔ اقوامِ متحدہ کی قرار داد کے تحت تو فلسطین میں دو ریاستیں وجود میں آنی تھیں ، ایک عرب فلسطینی ریاست اور ایک یہودیوں کی فلسطینی ریاست،مگر جو صیہونی ریاست وجود میں آئے، اس نے عرب فلسطینی ریاست کے ۲۱ فیصد علاقے کو اپنے اندر ضم کرلیا۔ بعد میں ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں دیگر علاقوں پر قبضہ کرلیا جن کا ذکر ہم کرچکے ہیں ، جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بے ہودہ مہم چلائے ہوئے ہیں ، انہیں اپنے ان نعروں کے مضمرات کا علم نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال میں اگر اسرائیل کو تسلیم کرلیا جاتا ہے، تو اس کا مطلب سوائے ایک ایسی مثال قائم کرنے کے کچھ نہ ہوگا کہ دنیا کا کوئی بھی زور آور ملک کمزور ملک پرچڑھائی کرکے اس کے علاقے کو ہتھیا سکتا ہے۔ مزید برآں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد ہم اخلاقی اور سیاسی طور پر انڈیا سے کشمیر کو آزاد کرانے کی بات نہیں کرسکیں گے۔
9. اسلامی تاریخ سے واقفیت کی ان ملت فروشوں سے کیونکر توقع کی جائے، انہیں تو دورِ حاضر کی تاریخ سے بھی مَس نہیں ہے۔ ان کی طبیعتوں میں یہودیت نوازی کا جوش جب زور مارتا ہے تو کہتے ہیں کہ پاکستان کی اسرائیل سے کیا لڑائی ہے؟ مگر وہ یہ نہیں سوچتے کہ آخر کچھ تو بات ہے کہ اسرائیلی قیادت پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے ناپاک منصوبے بناتی رہی ہے، آخر اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی مرکز کہوٹہ کو تباہ کرنے کی مکروہ منصوبہ بندی کیوں کرتا رہا ہے، کشمیر میں اسرائیل بھارتی افواج کے ساتھ مل کر حریت پسندوں پر ظلم و ستم کیوں ڈھا رہا ہے؟ اگر کوئی ’لڑائی‘ نہیں ہے تو اسرائیل پاکستان کے خلاف ان ریشہ دوانیوں اورسازشوں میں ملوث کیوں ہے؟ کاش یہ لوگ مولویوں پر غصہ برسانے کی