کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 8
عربوں اور فلسطینیوں کی مدد کی ہے، عراق پر حملہ ہوا، لوگوں کے جذبات قابل دید تھے۔ مگر ہر روز کشمیر میں نوجوان اور مسلمان مارے جاتے ہیں ،کبھی فلسطینی سڑکوں پر آئے؟ کبھی یاسرعرفات کے منہ سے ہندوستان کی مذمت سنی؟ پھر یہ کیسا یک طرفہ سلسلہ ہے؟‘‘
ایک سابق سفیر صاحب کی طرف سے اس طرح کا جذباتی اظہار یقینا تعجب انگیز ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایسے انسان بھی معاملات کو ایسے محدود تناظر میں دیکھتے ہیں۔ موصوف نے عجیب منطق پیش کیا؛ کیا ہمیں وحشی اسرائیلی ریاست کو اس لئے تسلیم کرلینا چاہئے کہ فلسطینی مسلمان کشمیر کے بارے میں مظاہرے نہیں کرتے؟کیا ہمیں فلسطینی مسلمانوں پر ڈھانے جانے والے ناقابل بیان ظلم و ستم پر محض اس لئے زبانیں بند رکھنی چاہئیں کہ جناب یاسر عرفات (بقول ان کے) نے کبھی ہندوستان کی مذمت نہیں کی؟ یہ کتنا بودا استدلال ہے۔
کیا ہم محض اس وجہ سے مسلمان ہیں کہ عرب مسلمان ہیں ۔ سفیر موصوف نے فلسطینی عوام کے جذبات کے متعلق بھی اپنی لاعلمی کو ظاہر کیا ہے۔ جناب یاسر عرفات بعض سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اگر ایسا نہیں کرپائے تو کیا ہوا، حماس جو ۸۰ فیصد فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم ہے، نے ہمیشہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ہمارا موقف تو یہ ہے کہ اگر حماس بھی یاسر عرفات کی پالیسی پر گامزن ہوجائے، تب بھی ہماری پالیسی وہ ہونی چاہئے جس کااظہار حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس شعر میں کیا ہے ؎
اُخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہوجائے!
8. ۱۹۱۸ء میں فلسطین کی یہودی آبادی کی حیفا کے علاوہ کہیں اکثریت نہ تھی۔ ان کی زبان فلسطینیوں کی طرح عربی ہی تھی، بظاہر ان کا شامی عربوں سے کوئی جھگڑا بھی نہ تھا۔ صیہونی ریاست کی تحریک امریکہ (بالخصوص نیویارک)، برطانیہ، روس اور یورپ کے دیگر ممالک میں رہائش پذیر یہودیوں کی برپا کردہ تھی۔ یہ سلسلہ ابتدا میں مذہبی نہیں تھا بعد میں مذہبی ہوگیا، جب صہیونی انتہا پسندوں نے موعودہ ریاست کے تصور پرایک مذہبی یہودی ریاست قائم کرنا چاہی۔ یہاں یہ پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ جب اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی