کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 7
کسی قوم کے افراد کا جب تک ضمیر مردہ نہ ہو جائے، ان کی زبانوں سے ایسے کلمات نہیں نکل سکتے۔ پوری انسانیت اور اُمت ِمسلمہ سے محض اس بنا پر غداری کی جائے کہ اسرائیل سے کچھ مالی مفادات مل سکیں گے، یہ سوچ اتنی گھناؤنی، مکروہ اور گھٹیا ہے کہ ایک باضمیر انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔اگر پاکستانی قوم کا اجتماعی ضمیر پستی کی اس انتہا کو پہنچ چکا ہے، جہاں مالی مفادات سے مزید محرومی کا متحمل ہونا اس کے بس کی بات نہیں رہی، تو اسرائیل کے ہاتھوں اپنے ضمیر کو فروخت کرنے کے علاوہ بھی کئی ’آبرومندانہ‘ صورتیں ہوسکتی ہیں ۔اگر پاکستان اس قدر مالی اضطراری کی کیفیت کے تابع ہے، تو شاید ہیروئن بیچ کر پیسے کمانا اسرائیل کو تسلیم کرکے رقم حاصل کرنے سے کہیں بہتر ہوگا۔
یہ مشورہ دینے والے نادانوں کو علم نہیں ہے کہ پاکستان عالم اسلام کے موقف کا ساتھ دے کر اخلاقی فوائد کے ساتھ ساتھ کس قدر مالی فوائد پہلے ہی حاصل کرچکا ہے۔ سعودی عرب، ایران، کویت اور دیگر عرب ممالک سے پاکستان کو گذشتہ ۵۰ سالوں میں جو مالی امداد ملی ہے، اس کا تخمینہ کھربوں روپے میں ہے۔ خلیج کی پہلی جنگ کے بعد سعودی عرب پاکستان کو تیل جس طرح رعایتی نرخوں پردے رہا ہے، اس کا سالانہ مالی فائدہ اَربوں روپے میں ہے۔ پاکستان مسلمان ممالک سے اس وقت جو مالی فوائد حاصل کررہا ہے، اسرائیل کوتسلیم کرنے کی صورت میں ملنے والے مالی فوائد اس کا عشرعشیر بھی نہیں ہوسکتے۔ مادّہ پرستوں میں اسلامی حمیت تو نہیں ہے، مگر معلوم ہوتا ہے عقل بھی زیادہ نہیں ہے۔ وہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ پاکستان کو ملنے والے مالی فائدہ کا صحیح شمار کرسکیں …!!
7. روزنامہ ’جنگ‘ نے اس موضوع پر ایک فورم منعقد کیا جس کی روداد اس کی ۲۲/جولائی ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں چھپی۔ شرکا کی اکثریت نے رائے دی کہ پاکستان کو اسرائیلی پالیسی پر نظر ثانی نہیں کرنی چاہئے۔ ایم کیو ایم کے فاروق ستار شاید واحد مقرر تھے جنہوں نے کہا کہ اسرائیلی پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ فورم میں شریک ایک صاحب جو سابق سفیر تھے، نے اگرچہ کھل کر تو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت نہ کی لیکن بین السطور موجودہ پالیسی پر عدمِ اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے نہایت جذباتی انداز میں یہ کہا: ’’ہم نے ہمیشہ