کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 60
کیے جانے والے مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا۔ حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے کہا کہ یہ قانون بنیادی طور پر تو بڑا مبارک تھا کہ اس کی زد میں وہ قادیانی اور عیسائی آتے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے رہتے ہیں مگر کوئی عدالت ان کے خلاف اس قانون کے تحت فیصلہ نہیں کر سکتی، اگر کہیں ہوتا بھی ہے تو باہر کی حکومتیں اور این جی اوز ان کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں ، اب اس قانون کو اہلحدیث علما کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ اہلحدیث ہی سب سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں ۔ اہلحدیث کی تو نسبت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے، ہمارے مخالفین ہمارے عدمِ اتحاد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قسم کے مقدمات قائم کر رہے ہیں بلکہ اب تو علمائے اہلحدیث کے قتل تک بات جا پہنچی ہے۔
پروفیسر حافظ عزیز الرحمن بن مولانا عبدالعزیز حنیف نے اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:’’ ہمیں اس حساس مسئلے میں ایسی حکمت ِعملی اختیار کرنا ہوگی کہ وہ سیکولر طبقہ جو اس قانون کا مخالف ہے، ان کی حمایت کا الزام بھی ہم پر نہ آئے ، دوسری طرف اس قانون کو غلط استعمال کرنے والوں کی سازشوں سے بھی ہم اپنے علما کو تحفظ دے سکیں ۔ اگر اس مسئلے پر ہم نے کوئی مثبت اور مدبرانہ پالیسی وضع نہ کی تو ہمارا بڑا نقصان ہوگا، لہٰذا جہاں کہیں کسی اہلحدیث عالم کے خلاف مقدمہ قائم ہو وہاں ہمیں عوامی پریشر بھی تیارکرنا ہوگا کیونکہ بعض دفعہ جج یہ جاننے کے باوجود کہ ملزم بریٔ الذمہ ہے ،اسے بری نہیں کر سکتا،کیونکہ دوسری طرف سے شدید احتجاج، پریشر اور قتل کی دھمکیاں ہوتی ہیں ۔ اس صورت میں پریشر کا مقابلہ ہمیں پریشر کے ساتھ کر کے عدالت سے ریلیف لینا ہوگا، دوسرے نمبرپر انگریزی صحافت میں اپنا اثر ورسوخ قائم کرنا ہوگا کیونکہ انگلش اخبار اگرچہ ان کی اشاعت کم ہے مگر پالیسیوں کے نفاذ و عدمِ نفاذ کے حوالے ان کا کردار بڑا مؤثر ہوتا ہے۔
انجینئرعبدالقدوس سلفی اور دیگر بعض علمائے کرام کی یہ بھی رائے تھی کہ ہمارے علمائِ کرام کو بدعات و خرافات کی تردید کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار کرنا چاہیے کہ کسی مخالف کو توہین رسالت کا مقدمہ قائم کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ ٭٭