کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 6
نے یہ رائے دی تھی کہ یہودیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں فی نفسہٖ کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے، مسلمان ممالک دیگر غیرمسلم ممالک کی طرح ایک یہودی ریاست سے تعلقات رکھ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس طرح غاصب اور ظالم نہ ہو جس طرح کہ اسرائیل ہے۔ شیخ علی طنطاوی اور دیگر عرب علما کی آرا بھی ریکارڈ پر ہیں جن میں انہوں نے فرمایا کہ اگر اسرائیل فلسطین کے مسلمانوں کے حقوق انہیں واپس کرتا ہے، تو اس سے تعلقات رکھے جاسکتے ہیں ۔
پاکستان کے نامور عالم مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی قرآنِ مجید کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں تحریر فرمایا ہے :
’’اس آیت ِمقدسہ میں اس وقت کی جماعت کا حال بیان کیا گیا ہے اور قیامت تک کے لئے کوئی خبر نہیں دی گئی کہ ہمیشہ عیسائیوں اور یہود و مشرکین وغیرہ کے تعلقات کی نوعیت اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ یہی رہے گی۔ بہرحال جو اوصاف عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عیسائیوں اور یہود و مشرکین کے بیان ہوئے وہ جب کبھی اور جہاں کہیں جس مقدار میں موجود ہوں گے اس نسبت سے اسلام اور مسلمانوں کی دوستی و عداوت کوخیال کرلیا جائے گا۔‘‘
گویا مسلمان علما کے نزدیک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ اس کا محض یہودی ریاست ہونا نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر بعض حضرات سمجھتے ہیں ۔ اس ریاست کاناپاک وجود، اس کی طرف سے فلسطینی مسلمانوں پر عدیم النظیر ظلم و ستم اور عرب علاقوں پر ناجائز قبضہ ایسی وجوہات ہیں کہ جنہیں نظرانداز کرکے اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہئے!!
ان ’روشن خیالوں ‘ سے ہماری گذارش یہ ہے کہ اگر انہیں مولویوں سے اس قدر بغض ہے کہ وہ ان کی جائز بات بھی نہیں سننا چاہتے، تو انہیں چاہئے کہ مسئلہ فلسطین پر حال ہی میں انتقال کرنے والے عالمی سطح کے دانشور ایڈورڈ سعید کے مضامین ہی دیکھ لیں ۔ اسی طرح پاکستان کے فیض احمد فیض پی ایل او کے سرکاری رسالہ کے ایڈیٹر رہے ہیں ، ان کے بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں ، ان کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
6. بعض افراد کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو یہ اس کے ’مفاد‘ میں ہوگا، اس طرح اسرائیل پاکستان کی مالی امداد کرسکتا ہے۔