کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 52
۱۴/ ستمبر ۲۰۰۳ ء کو مرکز دعوۃ التوحید، اسلام آباد کے زیر اہتمام علمائے اہلحدیث کا اجتماع منعقد کیا گیا، جس میں ۶۰ سے زائد علماء کرام نے شرکت کی۔ اجتماع میں دعوتِ اہلحدیث کو مؤثر بنانے اور موجودہ حالات میں علما کی ذمہ داریوں پر گفتگو کی گئی۔ پہلی نشست کی صدارت ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر اور دوسری نشست کی صدارت حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب نے کی۔ اس اجتماع کی غرض و غایت یہ تھی کہ بین الاقوامی اور ملکی حالات کے تناظر میں کتاب و سنت کی خالص دعوت پیش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، ان حالات میں اہلحدیث کو کیا حکمت ِعملی اپنانی چاہیے؟ اجتماع میں ہونے والی گفتگو کاخلاصہ ہدیۂ قارئین ہے …
افتتاحی کلمات: ڈاکٹر سہیل حسن، پروفیسر انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد
۱۱/ ستمبر کے حادثے کے بعد مسلمان مسلسل پستیوں کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ عالم اسلام میں دومسلم ممالک کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا اور وہ ’طاغوت‘ کے پنجہ استبداد میں پھنس کر رہ گئے جبکہ دیگر ممالک بھی اپنی سا لمیت کے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں بلکہ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ جبکہ کمزور مسلمانوں کو سہارا دینے کے لیے جو فلاحی ادارے کام کر رہے تھے، ان پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں ۔ علم کے چشموں اور دعوت کے سوتوں کو خشک کیا جا رہا ہے تاکہ دعوتِ حقہ کے علمبردار محرومیوں کا شکار ہو کر ختم ہو جائیں ۔ مسلمان ممالک میں داخلی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں ۔ نصابِ تعلیم کو تبدیل کر کے مسلمان طلبا کے ذہنوں میں سیکولرازم کا بیج بویا جا رہاہے۔ یہودونصاریٰ کی جرأت کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید میں تبدیلیوں کے منصوبے بنا رہے ہیں ۔ أخبار العالم الإسلامي کے مطابق دشمنانِ اسلام اس موضوع پر تبصرے کر رہے ہیں کہ ’سعودی عرب‘ میں اب تک جو قرآن مجید چھپ رہا ہے وہی قرآن جو دلوں میں جہاد کی روح پھونکنے والا اور دشمنانِ دین سے قطع تعلقی اور بیداری کا سبق دینے والا ہے۔ بعض ہرزہ سرائی کرنے والے یہاں تک بھی کہہ چکے ہیں کہ (نعوذ باللہ) خانۂ کعبہ کو نشانہ بنانا چاہیے۔ اسلام کے خلاف ذرائع ابلاغ کے ذریعہ زہر اگلا جا رہا ہے۔