کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 50
ریاست میں صرف اسلامی طرزِ حکومت و سیاست ہی کارآمد ا ور کامیاب ہوسکتا ہے، اور مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت چونکہ اسلامی روایات سے مطابقت نہیں رکھتی اس لئے اس کی نقالی مفید نہیں ، مضر ہے۔ اس تاریخی اجماع پر پاکستان کے باون سالہ (۱۹۴۷ء تا ۱۹۹۹ء) تجربات نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ مغربی طرز کے تین نظام حکومت اور آئین بنے اور ٹوٹے،یہاں تک کہ ملک بھی ٹوٹ کر آدھا رہ گیا۔ ۱۹۸۵ء کے بعد آئینی اور دستوری اصلاحات کا دوسرا موقع اب پھر آیا ہے اور وہ اس طرح کہ اکتوبر ۱۹۹۹ء میں قائم ہونے والی فوجی حکومت نے آئین ۱۹۷۳ء منسوخ نہیں ، معطل کیا ہوا ہے۔ پھر سپریم کورٹ نے آئینی کیس میں سربراہِ حکومت کو آئین ۱۹۷۳ء میں اصلاح و ترمیم کا اختیار بھی دے دیا ہے۔ اس عدالتی فیصلے کی روشنی میں موجودہ حکومت پربڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ ملک کو مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی تباہ کاریوں سے نجات دلائے۔اس کے لئے دو اقدامات ضروری ہیں ۔ اولاً یہ کہ انصاری کمیشن ۱۹۸۳ء کی جو تجاویز ۱۹۸۵ء میں آئین کا حصہ بن چکی ہیں ، ان (دفعات ۲/الف، ۶۲،۶۳) کو سختی کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ کمیشن کی باقی ماندہ سفارشات پر بھی عمل درآمد شروع کیا جائے۔ مثلاً کمیشن کا پیش کردہ بالکل نیا اور نادر انتخابی طریق کار جوں کا توں اختیار کیا جائے، جس سے انتخابات دھن، دولت اور اخراجات کے شیطانی چکر کے بغیر ہوجائیں گے۔ ان شاء اللہ!
لہٰذا پاکستان میں مغربی جمہوریت کی لوٹ کھسوٹ کی بجائے مجوزہ صاف و شفاف اسلامی شورائیت قائم کرنا انتہائی ضروری ہے اور وہی اسلام کی برکتوں کے حصول کا نکتہ آغاز ثابت ہوگا۔ اسلام کی فلاحی تصورِ ریاست کا جو خوشنما خواب ہم عرصہ سے دیکھ رہے ہیں اور جس کے لئے پاکستان کا خطہ حاصل کیا گیا، اس کی حقیقی تعبیر اسلام کے شورائی نظام سیاست (خلافت وامارت)کے نفاذ کے بعد ہی ہمیں حاصل ہوگی !!