کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 5
سے اسرائیل کے پاؤں میں جاگرے تھے؟ کیا مصری قوم نے ایک آمر حکمران کے اس فیصلے کو خوشی سے قبول کرلیا تھا؟ کیا بعد میں مصری قیادت اپنے اس فیصلے پر پچھتائی نہیں ہے؟ اگر اُردن کے شاہ حسین نے اپنے ذاتی اقتدار کو تحفظ دینے کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرلینے کی کڑوی گولی کھالی تھی تو ان کا اضطراری حالت میں کیا جانے والا یہ فیصلہ پاکستان یا دیگر مسلمان ممالک کے لئے قابل پیروی کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر پاکستان محض مصر اور اُردن کے حکمرانوں کو ہی پیش نظر کیوں رکھے، دیگر ۵۰ ممالک کا ساتھ کیوں نہ دے؟ آج بھی اگر مصر اور اُردن کے عوام کی رائے لی جائے تو وہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے حق میں ووٹ دیں گے۔ پھر پاکستانی عوام کیااتنے بے حمیت ہیں کہ وہ اسرائیل کو اس وقت تسلیم کرلیں جب اس کے ظلم و ستم کا سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ خوفناک ہوتا جارہا ہے…!! 5. ہمارے نام نہاد روشن خیال دانشوروں نے ہر معاملے میں مولویوں پر تنقید کو اپنا وطیرہ بنا رکھا ہے، ورنہ کون نہیں جانتاکہ اسرائیل کوتسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ محض پاکستان کے مولویوں کا معاملہ نہیں ہے، یہ اُمت ِمسلمہ کے ہرفرد کے ضمیر کا معاملہ ہے۔ اُمت ِمسلمہ ہی کیا، ہر اس انسان کے ضمیر کامسئلہ ہے جسے انصاف پسند ہونے کا دعویٰ ہے۔ نادانوں کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ بانی ٔ پاکستان محمدعلی جناح نے ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا، تو یہ مولویوں کے دباؤ کا نتیجہ نہیں تھا، بعد کے سیکولر حکمرانوں نے بھی اگر اس پالیسی کو جاری رکھا، تو اس کی وجوہات امت ِ مسلمہ سے یکجہتی، مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور ظلم و عدوان کے خلاف احتجاج تھیں نہ کہ مولویوں کا دباؤ۔ یہاں ہم اپنے ان روشن خیال افراد کی معلومات کے لئے یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ آج سے چھ سات برس پہلے عرب ممالک کے علما میں یہودیوں کے ساتھ خارجہ تعلقات رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں بحث چلی تھی جس میں مصر، سعودی عرب، یمن، قطر اور دیگر عرب ممالک کے علما نے حصہ لیا تھا۔ یہ بات شاید ہمارے ان روشن خیالوں کے لئے بھی تعجب کا باعث ہوگی کہ اس وقت کے سعودی عرب کے عالمی شہرت یافتہ مفتی اعظم شیخ عبداللہ بن عبدالعزیز بن باز