کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 49
میں آخری کیل ٹھونک دیتی ہے۔ آج بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی ان تاریخی دستاویزات کو ہی مشعل راہ بنایا جائے۔ 9. ۱۹۸۳ء کے اواخر میں عالم اسلام کی عالمگیر تنظیم رابطہ عالم اسلامی کے سربراہ استاذ عبداللہ عمر النصیف پاکستان کے دورے پر آئے تو ’ورلڈ اسلامک ٹائمز‘ اسلام آباد نے ان سے ایک انٹرویو لیا۔ اپنے انٹرویو میں دنیا کی اس بین الاسلامی تنظیم کے قائداعلیٰ نے مفصل و مدلل طور سے بتایا کہ ازروئے قرآن وسنت کسی اسلامی ریاست میں مغرب کی سیاسی پارٹی بندی اور جنگ ِاقتدار کے لئے لام بندی انتہائی مہلک ہے اور اسی لئے قرآن مجید نے صرف ’حزب اللہ‘ کا تصور دیا ہے، احزاب اللہ کا نہیں ۔ 10. ۱۹۸۵ء میں صدر محمد ضیاء الحق نے انصاری کمیشن ۱۹۸۳ء کی دو اہم ترین سفارشات کو آئین پاکستان ۱۹۷۳ء میں شامل کردیا۔ اولاً یہ کہ قرار دادِ مقاصد ۱۹۴۹ء کو آئین کے دیباچے کے ساتھ آئین کے متن میں درج کردیا (دفعہ ۲/الف) ثانیاً: یہ کہ عوام کے منتخب نمائندوں کے لئے اسلامی معیار صلاحیت وصالحیت مقرر کردیا۔ (دفعات ۶۲ اور ۶۳) 11. ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۹ء تک چار مرتبہ انتخابات ہوئے اور چار حکومتیں قائم ہوئیں مگر ۱۹۸۵ء کی آئینی ترمیماتِ اسلامی پر عمل نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اس ’جمہوریت‘کا نتیجہ بھی ماضی کی طرح نکلا اور ملک میں سیاسی افراتفری اور مالی لوٹ کھسوٹ مقتدر سیاست کاروں نے مچائی۔ بالآخر اکتوبر ۱۹۹۹ء میں پھر فوج کو ماضی کی طرح مداخلت کرکے حکومت سنبھالنی پڑی تاکہ اصلاحِ احوال کیا جاسکے۔ اب اس وقت یعنی ۲۰۰۲ء میں اصلاحِ احوال کا سلسلہ پھر سے جاری و ساری ہے اور اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات نئے اور اصلاحی اصولوں پر کرائے جانے کا دعویٰ کیا گیاہے، تاکہ پاکستانی سیاست و حکومت صاف و شفاف اور گندگی سے پاک ہوجائے۔ ماضی، حال اور مستقبل ؛ تاریخ پاکستان کے آئینے میں مندرجہ بالا تاریخی جائزہ واضح کردیتا ہے کہ مصورِ پاکستان اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور معمارِ پاکستان قائد اعظم سے لے کر انصاری کمیشن ۱۹۸۳ء تک تمام اہل دین و دانش کا اتفاق رہا ہے کہ اسلامی