کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 48
8. ۱۹۸۳ء میں اسلامی نظریاتی کونسل کی یہ سفارش ملنے کے بعد کہ مروّجہ جماعتی انتخابات کے بجائے معیارِ کردار کی بنیاد پر غیرجماعتی انتخابات کا اہتمام کیا جائے، صدرِ پاکستان نے ایک دستوری کمیشن تشکیل دیا۔ مولانا ظفراحمد انصاری جیسے کہنہ مشق ماہر دستوریات کی سربراہی میں بیس رکنی دستوری کمیشن میں اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان، قانون دان حضرات اور عہد ِجدید کے جید علما شامل کئے گئے۔ اس انصاری کمیشن۱۹۸۳ء کے سپرد یہ کام کیاگیا کہ وہ اس وقت تک کی تمام رپورٹوں کا جائزہ لے کر نظم مملکت کا ایک اسلامی آئینی ماڈل پیش کرے۔ یہ اہم کام کمیشن نے ۱۸ روز کی قلیل مدت میں انجام دے دیا۔ اور صدرِ مملکت کو اپنی رپورٹ پیش کردی جو حکومت نے اگست ۱۹۸۳ء میں شائع بھی کردی۔ اس رپورٹ میں نہ صرف یہ کہ قراردادِ مقاصد ۱۹۴۹ء اور مشہورو معروف علماء کے ۲۲ نکات ۱۹۵۱ء شامل ہیں ، بلکہ ان ہی تاریخی دستاویزات کی بنیاد پر اسلامی نظم مملکت کا آئینی و عملی ماڈل پیش کیا گیا ہے۔ انصاری کمیشن نے مغرب کے تینوں قسم کے سیاسی نظام یعنی پارلیمانی، صدارتی اور پارلیمانی صدارتی ملے جلے نظام میں سے ہر ایک کو ٹھوس حقائق و دلائل کے ساتھ ناقابل قبول اور ناقابل تقلید قرار دیا اور پاکستان کے لئے’شورائی امارت‘ کا اسلامی نظام نہ صرف یہ کہ تجویز کیا بلکہ اس کا ایک قابل عمل ماڈل بنا کر پیش بھی کردیا۔ علاوہ ازیں انصاری کمیشن ۱۹۸۳ء نے ایک اور کام ایسا انجام دیا، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور وہ یہ کہ مجوزہ نظام شورائی امارت کو کامیابی کے ساتھ قائم کرنے کے لئے رائج الوقت مغربی طرزِ انتخابات کاایک متبادل، مکمل اور تفصیلی طریق کار بھی وضع کر دیا۔ اس وضع کردہ طرز و طریق انتخابات میں انفرادی اور جماعتی ’امیداواری‘ نظام کو یکسر ختم کرکے ’تجویزی‘ نظام اس طرح تشکیل دیا ہے کہ انتخابات میں مال و دولت اور سرمایہ کی ریل پیل بند ہوجائے اور انتخابات کامرکز و محور صرف معیارِ نمائندگان یعنی معیار صلاحیت و صالحیت بن جائے۔ بلاشبہ کمیشن کا یہ ایک نیا اور نادر کارنامہ تھا کہ اس نے انتخابی سرمایہ کاری پر مضبوط بند باندھنے اور انتخابات بغیر اخراجات کرانے کا مکمل و مجرب نسخہ پیش کردیا۔ مختصراً یہ کہ انصاری کمیشن رپورٹ ۱۹۸۳ء، وہ آخری تاریخی دستاویز ہے ،جو مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تابوت