کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 47
سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے پاکستان میں رائج کردہ نظامِ حکومت و سیاست ۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۷ء پرایک طائرانہ نظر ڈالی جائے :… شروع کے ان تین عشروں میں اربابِ اقتدار و سیاست نے مذکورہ بالا اربابِ دین و دانش کی بات نہ مانی اور اپنی من مانی کرکے مغرب کے مختلف نظام سیاست و انتخابات کی یکے بعد دیگرے نقالی کی۔ لہٰذا ان تین عشروں میں تین قسم کے دساتیر (دستور ۱۹۵۶ء،۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء) بنائے گئے۔ تین طرح کے نظامِ حکومت (پارلیمانی ، صدارتی اور آمرانہ پارلیمانی) قائم کیے گئے۔ تین مرتبہ انتخابات ۱۹۶۴ء، ۱۹۷۰ء اور ۱۹۷۷ء ) ہوئے اور تین ہی بار مارشل لاء (۱۹۵۸ء، ۱۹۶۹ء اور ۱۹۷۷ء) لگے۔ ان سب کارروائیوں کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بحران میں گرفتار رہا اور اسی دوران ٹوٹ کر آدھا رہ گیا۔ اسلامی روایات واحکامات پر عمل نہ کرنے کا یہ تھا بھیانک اور ہولناک انجام۔ مختصر یہ کہ تیس سالہ (۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۷ء) دردناک داستان۱۹۷۷ء کے مارشل لاء پر اختتام پذیر ہوئی۔ اس تیسرے مارشل لاء کی حکومت نے ماضی سے سبق حاصل کرلیا اور اچھی طرح سمجھ لیا کہ ملک کی بقا اور سلامتی کی ضمانت صرف نظامِ اسلام ہی میں مضمر ہے۔ لہٰذا اس نے نفاذ اسلام کے محض اعلان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس طرف پیش قدمی بھی شروع کردی۔ اس سلسلے میں اس وقت کی حکومت نے ایک اہم کام یہ کیا کہ ملکی نظام و قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی اور اس میں نامور علماء جج صاحبان، قانون دان اور دانشور حضرات شامل کئے۔ اس کے بعد پیش آیا اگلا تاریخی مرحلہ :
7. ۱۹۷۹ء میں صدر ضیا ء الحق نے اسلامی نظریاتی کونسل سے کہا کہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی نظام حکومت و سیاست کا خاکہ بنا کر پیش کرے۔ کونسل نے اپنی دو رپورٹیں حکومت کو پیش کیں ۔ اور حکومت نے کونسل کی سفارشات کی آخری رپورٹ ملتے ہی اسے جون ۱۹۸۳ء میں شائع کردیا۔ جس میں مغربی جمہوریت کے سیاسی پارٹی سسٹم اور جماعتی انتخابات کو ناجائز قرار دیا گیا اور اسلام کا شورائی نظام اور شرائط ِاہلیت و تقویٰ کے ساتھ انتخابات تجویز کئے گئے۔