کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 46
کے منتخب ممبروں سے یہ حلف لیا جائے کہ وہ اپنی رکنیت کے دوران اسمبلی میں صرف اسلام، مفادِ پاکستان اور اپنے ضمیر کے مطابق اظہارِ رائے کریں گے اور وہاں وہ کسی سیاسی پارٹی یا سیاسی گروپ کے فیصلے اور مینڈیٹ کے تابع نہ ہوں گے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو انٹرویو مولاناظفراحمدانصاری: ہفت روزہ ’تکبیر‘ ۲۷ /اپریل تا ۳/ مئی ۱۹۸۴ء)
4. اگلے سال یعنی ۱۹۵۱ء میں تاریخ ِپاکستان کا اہم ترین واقعہ رونما ہوا اور وہ یہ کہ تمام اسلامی مکاتب فکر کے ۳۱ /اکابر علماء نے متفقہ طور پر آئین سازی کے لئے ایک ۲۲ نکاتی دستاویز حکومت کو پیش کردی۔ اس تاریخی اتفاقِ علماء میں بھی مغربی جمہوری نظام کی بجائے اسلام کا شورائی نظام تجویز کیا گیا تھا۔ وقت کی اس اعلیٰ ترین مجلس علماء میں چوٹی کے تمام علماء شامل تھے مثلاً علامہ سلیمان ندوی، مولانامودودی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا ظفراحمدانصاری، مولانا عبدالحامد بدایونی، علامہ سید داؤد غزنوی، علامہ راغب احسن، مولانا احمدعلی، مفتی محمد حسن، مولانا اطہر علی اور مولانا ادریس کاندھلوی وغیرہ۔
5. اس سے اگلے سال یعنی ۱۹۵۲ء میں مجوزہ بالا اسلامی شورائیت کی راہ ہموار کرنے اور مغربی جمہوریت کی راہ مسدود کرنے کے لئے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے قوم کے سامنے یہ حکمت ِعملی پیش کی کہ ملک میں سیاسی پارٹی سسٹم سرے سے ختم کردیا جائے۔ (ملاحظہ کیجئے ان کی یہ دو کتابیں : ’اسلامی دستور کی تدوین‘ اور ’اسلامی ریاست‘) واضح رہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ وہ صاحب ِعلم دانشور تھے جو بیک وقت برصغیر پاک و ہند کی تحریک اسلامی کے بانی بھی تھے اور اوپر بیان کردہ معزز اداروں کے رکن بھی تھے۔ یعنی ۱۹۴۰ء والی مسلم لیگ کی دستوری کمیٹی کے رکن بھی تھے اور ۱۹۵۱ء والی مجلس علماء کے رکن بھی۔
6. ٹھیک اسی زمانے میں عالم اسلام کی دوسری بڑی تحریک ِاسلامی یعنی مشرقِ وسطیٰ کی تنظیم ’اخوان المسلمون‘ کے سربراہ استاذ حسن البناء نے عالم اسلام کو یہ مشورہ دیا کہ غیر اسلامی مغربی جمہوریت اور سیاسی پارٹی بازی کو ترک کردیا جائے۔
اب مغربی سرمایہ دارانہ سیاست و جمہوریت کے خلاف اگلے تاریخی مراحل کی اہمیت