کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 45
(ج) قیامِ پاکستان اگست ۱۹۴۷ء کے بعد سے اب (۲۰۰۲ء) تک
1. پاکستان بننے کے بعد بھی قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ موقف پر قائم رہے اور اسلامی سیاست اور شورائیت کا اعلان کرتے رہے۔ انہوں نے جنوری ۱۹۴۸ء میں برملا کہا کہ:’’ اسلام صرف رسوم و روایات اور روحانیت کا مجموعہ نہیں ، بلکہ مسلمان کی پوری زندگی پر محیط ہے، جس میں سیاست و معیشت اور دیگر تمام شعبہ حیات شامل ہیں ۔‘‘ فروری ۱۹۴۸ء میں ان کا تاریخی بیان یہ تھا کہ:’’ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس میں مضمر ہے کہ ہم ان بیش بہا اُصولوں کی پیروی کریں جو ہمارے قانون دہندہ پیغمبر اسلام1 نے ہمارے لئے وضع کئے ہیں ۔ آئیے ہم اپنی ریاست کی اساس سچے اسلامی تصورات اور اصولوں پر قائم کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے اُمورِ حکومت باہمی مشوروں سے طے کریں ۔‘‘ افسوس کہ قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کو موت نے مہلت نہ دی کہ وہ اسلامی نظام حکومت اور شورائیت قائم کردیتے۔ جلد ہی وہ ستمبر ۱۹۴۸ء میں چل بسے۔
2. ۱۹۴۹ء کے آغاز میں علامہ شبیر احمد عثمانی (رکن اسمبلی) کی کوششوں سے اسمبلی میں پیش کرنے کے لئے قراردادِ مقاصد مرتب ہوئی۔ یہ قراردادِ مقاصد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ۱۲/ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کرلی، جس میں اقرار کیا گیاکہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے،لہٰذا دستورِ مملکت اسلام کے مطابق ہوگا اور اس میں حریت، جمہوریت، مساوات، رواداری اور عدلِ عمرانی کی صرف وہ تشریح اختیار کی جائے گی جو اسلام نے پیش کی ہے۔اس تاریخی دستاویز میں بھی مغربی سرمایہ دارانہ جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی۔
3. قراردادِ مقاصد ۱۹۴۹ء کے فوراً بعد حکومت نے صحیح سمت کی جانب پیش قدمی کے لئے ’تعلیماتِ اسلامیہ بورڈ‘ تشکیل دیا، جس میں علامہ سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری جیسے مشاہیر اور ماہرین قرآن و سنت شامل تھے۔ اس بورڈ نے مختلف تجاویز پر مبنی ایک رپورٹ ۱۹۵۰ء ہی میں حکومت کو پیش کردی جس میں مغربی جمہوریت سے بچنے کے لئے ابتدائی طور پر ایک نہایت مؤثرتدبیر بتائی گئی تھی۔ بورڈ کی تجویز یہ تھی کہ اسمبلی