کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 44
خاکہ اس طرح مرتب کیا گیا ہے کہ وہ عصر جدید کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔ اسی تاریخی دستاویز میں مغربی نظام جمہوریت کو جن وجوہات کی بنا پر ردّ کیا گیا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں کہ اس لادینی نظام سے گروہ بندی پیدا ہوتی ہے اور جماعتی تعصب قائم ہوجاتا ہے۔حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کی مستقل تقسیم سے تفریق و تفرقہ اور خانہ جنگی کی نوبت آجاتی ہے۔ اقتدار وہ پارٹی حاصل کرلیتی ہے، جو دولت و سرمایہ سے مالا مال ہو اور اہل اقتدار کے لئے انتخاب بلا شرط اور بغیر معیار کے ہوتا ہے، یعنی یہ کہ وہاں نہ صلاحیت کی شرط ہوتی ہے اور نہ صالحیت کا معیار۔ غرضیکہ ۱۹۴۲ء میں صف ِاوّل کے اربابِ دین و دانش نے متفقہ طور پر مغربی طرزِ جمہوریت کو انتہائی مضر اور ناجائز قرار دے دیا تھا۔ 2. علاوہ ازیں سات سالہ تحریک ِپاکستان ۱۹۴۰ء تا ۱۹۴۷ء کے دوران معمارِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اللہ علیہ باربار اپنے اس عزم کا اعادہ کرتے رہے کہ پاکستان میں صرف اسلامی قوانین کے مطابق حکومت قائم کی جائے گی۔اس ضمن میں یہاں ان کے صرف دو ارشادات کا حوالہ کافی ہوگا: مارچ ۱۹۴۲ء میں انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان کے لئے مغربی جمہوریت اور سیاسی پارٹی سسٹم نقصان دِہ ہوگا۔‘‘ پھر دسمبر ۱۹۴۴ء میں یومِ اقبال کی ایک تقریب میں معمارِ پاکستان قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مصورِ پاکستان اقبال کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ ’’میں دعا کرتا ہوں کہ ہم اپنے قومی شاعر کے پیش کردہ تصورات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں تاکہ جب ہماری کامل الاقتدار مملکت قائم ہوجائے تو اس میں ہم ان مقاصد کو حاصل کرسکیں اور ان تصورات کو عملی جامہ پہنا سکیں ۔‘‘ یہ دو تاریخی ارشادات ِقائد اس بات پر شاہد ہیں کہ وہ بھی قیام پاکستان سے بہت قبل اقبال اور اکابر علما کی اس پختہ رائے سے متفق تھے کہ اسلامی مملکت پاکستان میں مغربی جمہوریت رائج نہیں ہونی چاہئے۔