کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 4
پھریہ بھی دیکھیں کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے مسلمانوں کو بے دخل نہیں کیا۔ کشمیر کا مسئلہ ابھی زندہ ہے۔ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی اُمید اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ مگر اسرائیل کا قبضہ ہی نہیں ، مستقل وجود بھی قائم ہوگیا ہے۔ اب اسکے ختم ہونے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تین جنگیں لڑی جاچکی ہیں ، مگر ان جنگوں کے نتیجہ میں ایک دوسرے کے زیر قبضہ آنیوالے علاقے واپس دے دیے گئے تھے۔ اسرائیل کا معاملہ مختلف ہے۔ تاریخی حقائق کے مطابق ’’یہود تقریباً تین ہزار سال پہلے فلسطین میں آباد ہوئے اور کچھ عرصہ کے لئے حکمران رہے تھے۔ شمالی فلسطین پر ان کا قبضہ زیادہ سے زیادہ چار پانچ سو سال رہا تھا اور جنوبی فلسطین میں یہ آٹھ نو سو سال آباد رہے تھے جبکہ عرب قبائل دو اڑھائی ہزار سال پہلے فلسطین میں آباد چلے آرہے تھے۔ مگر یہود و نصاریٰ کی بناکردہ ’اقوامِ متحدہ‘ نے یہود کا حق فائق گردانا اور انہیں فلسطین میں اپنی مملکت قائم کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ارضِ فلسطین کو یہودیوں اور عربوں میں تقسیم کردیا۔ پھر اس تقسیم میں صریحاً ناانصافی کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد تقسیم منظور کرتے ہوئے ساڑھے بارہ لاکھ فلسطینی عربوں کے لئے تو فلسطین کا ۴۵ فیصد رقبہ مخصوص کردیا مگر چھ لاکھ یہودیوں کو ۵۵ فیصد علاقہ بخش دیا۔ جارح یہودی ریاست نے عرب اسرائیل کے جنگ ۱۹۶۷ء کے دوران فلسطین کا ۷۸ فیصد تک رقبہ ہتھیا لیا اور پھر اُنیس برس بعد تیسری عرب اسرائیل جنگ ۱۹۷۳ء میں پورا فلسطین اور بیت المقدس یہودیوں کے تسلط میں چلا گیا۔‘‘ آج کا اسرائیل ۱۹۴۸ء کے اسرائیل سے تین گنا بڑا ہے۔ ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے صحراے سینا، مغربی کنارہ، گولان کی پہاڑیاں اور یروشلم کے جس علاقے پر قبضہ کیا تھا، وہ آج تک قائم رکھے ہوئے ہے۔ 4. یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ جب مصر اور اُردن جیسے عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کررکھا ہے تو پاکستان اس میں مزید تاخیر کیوں روا رکھے ، مگر یہ لوگ یہ بات فراموش کردیتے ہیں کہ مصر اور اُردن نے کن حالات میں اسرائیل کو تسلیم کیا؟ کیا انورسادات خوشی