کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 35
٭ البتہ دوسرے جانور مثلاً گائیں اور بکریاں چوٹ یا کرنٹ کی وجہ سے زیادہ تعداد میں مرتی ہیں ۔ کسی مذبح میں ان کی نسبت کم ہوتی ہے، کسی میں زیادہ۔ بعض ذبح خانوں میں تویہ تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ مجموعی طور پر ان ذبیحوں کو حلال قرار دینا مشکل ہوجاتاہے، اور انہیں مشکوک یا حرام کے ذیل میں شامل کردیتاہے۔ اس لئے ان معلومات کی روشنی میں ان ذبیحوں کے حلال ہونے میں شبہ اور اختلاف پیدا ہوگیاہے۔ ٭ شبہ کی وجہ سے اس مسئلہ میں دو عموم باہم متعارض ہیں : ایک تو یہ عموم ہے کہ اہل کتاب کے تمام ذبیحے حلال ہیں ، سوائے اس خاص جانور کے، جس کے بارے میں ثابت ہوجائے کہ وہ مردار ہے۔ دوسرا عموم یہ ہے کہ ہر گوشت کھانا اور ہر عورت سے نکاح کرنا حرام ہے سوائے اس کے جس کے حلال ہونے کی دلیل مل جائے۔ قدیم اور ہم عصر علما میں دونوں اقوال کے قائل موجود ہیں ۔ اس سلسلے میں جو بات ہمیں صحیح معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس قسم کا گوشت کھانا شبہ کے دائرہ میں داخل ہے۔ لہٰذا تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اس سے پرہیز کیاجائے، تاہم یہ حرمت کی سطح تک نہیں پہنچتا۔ لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے اجتہاد کی بنا پر، یا کسی دوسرے عالم کی رائے کی بنا پر اس رائے سے اختلاف رکھتا ہے تو اسے برا نہیں کہا جاسکتا۔ واللّٰه أعلم ٭ جب صورتِ حال یہ ہو، اور مسلمان کے لئے ممکن ہو کہ وہ شبہ سے بچ سکے اور مسلمانوں کی مارکیٹ سے ایسا گوشت خرید سکے جس کے حلال ہونے کا یقین ہو، پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ دوسرا (مشکوک) گوشت استعمال کرے؟ وہ ایسا کیوں نہیں کرتا کہ ایک طرف تو تقویٰ کی، اور اختلاف سے بچنے کی نیت رکھے، دوسری طرف غیر مسلم ممالک میں قائم اسلامی منصوبوں کی امداد اور ان کو کامیاب کرنے کی کوشش کی نیت رکھے؟ اس طرح اللہ تعالیٰ اسے دگنا ثواب دے گا، اور اسے اللہ کی دگنی رحمت حاصل ہوگی۔ ٭ یہاں ان معاشروں میں مسلمان کا روباری افراد کے لئے ایک نصیحت کرنا بھی ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس قسم کے معاشرے میں یہ بھی ایک بہت بڑی نیکی بلکہ جہاد ہے کہ