کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 33
اختیار کرچکا ہے اور تمام آسمانی مذاہب کا کلیۃ منکر ہے۔ ٭ ان اجتہادات پر غور کرنے سے ہمیں مندرجہ ذیل اُمور صحیح معلوم ہوتے ہیں : ٭ اہل کتاب کا وہ ذبیحہ جائز ہے جس کاذکر قرآن و حدیث میں ہے، اور جس پر اُمت کا اجماع ہے۔ ٭ ان کے ذبیحہ کے حلال ہونے کی دو شرطیں ہیں : ایک یہ کہ اسے (اللہ کا نام لے کر) ذبح کیا جائے، اوروہ غیر اللہ کے نام کا نہ ہو۔ ٭ ہر اس شخص کو اہل کتاب میں شامل سمجھا جائے گا جو خود کو یہودی یا عیسائی کہتا ہے، اور اِجمالی طور پر یہودیت یا عیسائیت کو اپنا دین قرار دیتا ہے۔ وہ اس وقت تک اس صفت کے حامل سمجھے جائیں گے جب تک اس اقرار کے منکر ہوکر مکمل طور پر بت پرستی یا اِلحاد کومذہب کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ تثلیث وغیرہ کے غلط عقائد رکھنے کی وجہ سے وہ اس صفت سے (یعنی اہل کتاب ہونے سے) خارج نہیں ہوں گے۔ قرآن میں یہ عقائد رکھنے والوں کو اسی نام سے مخاطب کیا گیا ہے۔ ٭ اہل کتاب کا ذبح کیا ہوا وہ جانور، جو شرعی طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا، اسے حلال قرار دینا محل نظر ہے۔ اس بارے میں ابن العربی کے قول پر اعتماد کرنا ضعیف موقف ہے۔کیونکہ ابن العربی سے پہلے کسی عالم نے یہ موقف اختیار نہیں کیا۔ بلکہ خود ابن العربی نے مذکورہ بالا کتاب میں اس فتویٰ کے خلاف بات کی ہے۔ اس لئے بہت سے مالکی علما اسے شاذ قول قرار دیتے ہیں ۔ بسطامی نے یہاں تک کہہ دیا ہے: ’’کاش ان کا یہ قول موجود نہ ہوتا، اور مسلمانوں کی کتابوں میں درج نہ کیا جاتا۔‘‘ ٭ سوال ۴۱: ان میں سے جس ملک کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں کے لوگ شرعی طریقے سے ذبح نہیں کرتے حتیٰ کہ ان کے ہاں یہی چیز غالب اور اکثر ہے تو ان کے ذبح کئے ہوئے جانوروں سے پرہیز کرناضروری ہے، کیونکہ احکام کا دارومدار اکثر اور غالب کیفیت پر ہوتا ہے۔ گوشت اور نکاح کے مسائل میں اُصول یہ ہے کہ جس کے جواز کی دلیل ملے، وہی