کتاب: محدث شمارہ 273 - صفحہ 3
کرکے اسے یہودیوں کو دے دیا گیا جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی مسلمان آج تک مہاجرین کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ جدید تاریخ اسرائیل کے علاوہ کوئی اور مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کہ جہاں ایک مقامی قوم کو بے دخل کرکے ان کے علاقے پر مختلف ملکوں سے آنے والے دوسری قوم کے افراد کو نہ صرف بسا دیا جائے بلکہ ان کی ریاست بھی قائم کردی جائے۔ یہ سراسر ظلم اور ناانصافی تھی جسے اس وقت کی استعماری طاقتوں نے فلسطین کے بے چارے مسلمانوں سے روا رکھا۔ ان لوگوں کے عالمی تصورِ انصاف کا ماتم نہ کیا جائے توکیا کیا جائے جنہوں نے بزعم خویش یہودی قوم سے کی جانے والی ’ناانصافی‘ کی تلافی فلسطینی مسلمانوں سے اس سے بڑھ کر ’ناانصافی‘ کی صورت میں کی!! یہود کو فلسطین کو چھوڑے ہوئے ہزاروں سال ہوگئے تھے۔ وہ اپنی مرضی سے یہ خطہ چھوڑ کر امریکہ، یورپ اور روس کے علاقوں میں آباد ہوگئے تھے، مسلمانوں نے انہیں زبردستی نہیں نکالا تھا۔ اب ایک ہزار سال کے بعد ان کے چند لیڈروں میں یہ اُمنگ بیدار ہوئی کہ ان کی یہودی ریاست ہونی چاہئے تو اس کا یہ طریقہ ہرگز نہیں تھا جو اپنایا گیا۔ استعماری طاقتوں نے جب اسرائیل کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تب بھی ان کاضمیر مردہ تھا اور آج بھی ان کی سوچ میں تبدیلی نہیں آئی۔ 3. کہا جاتا ہے کہ جب بھارت اور دیگر عیسائی ممالک سے پاکستان کے تعلقات ہیں ، تو اسرائیل کو آخر تسلیم کیوں نہ کیا جائے؟ یہ انتہائی لغو استدلال ہے۔ اسرائیل کا بھارت اور دیگر عیسائی ممالک سے موازنہ کرنا اپنے فکری بانجھ پن کا اشتہار دینے کے مترادف ہے۔ کیا کوئی ایک بھی عیسائی ملک ایسا ہے جو مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کرکے قائم کیا گیا ہو۔ بھارت کا معاملہ بھی اسرائیل سے قابل موازنہ نہیں ہے، بھارت نے جس وقت کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا، اس وقت کشمیر کا پاکستان سے الحاق عملاً ہونا باقی تھا اور ۱۹۵۴ء تک بھارت نے کشمیر پر استصوابِ رائے کرانے پر اتفاق کیا، بعد میں اس کی نیت بدل گئی۔ اب بھی بھارت مقبوضہ کشمیر کو اپنا ’اٹوٹ انگ‘ کہتا ہے، مگر ساری دنیا اسے متنازعہ فیہ علاقہ سمجھتی ہے۔